Tuesday, February 14, 2017



 روزنامہ محاسب ایبٹ آباد، یکم جولائی، 2018

ویلے نی اپنے حلقے نیں لوکاں ای 35 سالاں تک
 تعلیم، صحت تے مواصلات وچ 
پسماندہ رکھنے والیاں نیں عبرتناک انجام نی گل
**********************************
خدایا، کون ہے ثانی،  ترا سارے زمانے میں
تو ہی تو واحد بے مثل ہے ، اس کارخانے میں
تو شاہوں کو گدا کردے، گدا کو بادشاہ کر دے
اشارہ تیرا کافی ہے ۔ گھٹانے اور بڑھانے میں

--------------------------------------
اے اہل بصیرت، تم ان واقعات سے عبرت حاصل کرو ۔۔۔۔۔ القرآن
---------------------------------------
ابن الوقت کوئی بھی ہو، جب اپنے محسنوں سے کئے گئے وعدوں سے ہٹتا ہے، قدرت اس کا نام و نشاں مٹانے کیلئے خود اسباب پیدا کرتی ہے ۔
---------------------------------------

 انیس سو تراسی میں سرکل لورہ سرکل بکوٹ سے الگ ہو گیا تھا ۔۔۔ اسے دوبارہ کس نے گڑھی حبیب اللہ سے اسلام آباد کی مارگلہ ہلز تک جوڑا؟
*******************

تحریر
محمد عبیداللہ علوی بیروٹوی
*******************
      روزنامہ محاسب ایبٹ آباد، یکم جولائی دوہزار اٹھارہ 

جو 30 سال تک فاتح سرکل بکوٹ تھا ۔۔۔۔۔۔ جو نااہل لیگ کے گاڈ فادرز کیلئے بھروسے کا ایک لازمی وفادار ساتھی رہا ۔۔۔۔۔۔ جو نااہل لیگ کے ہر پالیسی معاملہ پر ایک اتھارٹی جانا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ جو موجودہ الیکشن میں نااہل لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا قائد تھا ۔۔۔۔۔۔ جو لاتعداد صوبائی و وفاقی وزارتوں اور سرکاری کارپوریشنوں کا سربراہ رہا ۔۔۔۔۔۔ جسے خدائے ذوالجلال نے وزیر اعلیٰ اور گورنر کے پی کے کے مناصب جلیلہ بھی عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔ جو راقم السطور سمیت سرکل بکوٹ کے صحافیوں سے ہر ملاقات میں ببانگ دہل کہا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں، نون لیگ کو میری ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ مگر کیسے اور کیوں ۔۔۔۔۔۔؟ قدرت نے اسے اسے مکھن سے بال کی طرح اٹھا کر ملکوٹ اور اسلام آباد کے ایف سیون سیکٹر کے ایک شیشوں سے ڈھانپے ہوئے بنگلوں میں کس منجنیق سے پھینک دیا ۔۔۔۔۔۔۔؟ جہاں اس کیلئے تمام سیاسی راستوں پر بیریئر لگ گئے ہیں ۔۔۔۔۔ جہاں اب گھر کے کسی کونے میں تاریخ کا ایک پرانا اور فرسودہ باب بن کر زندگی کے باقی دن پورے کرنے کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کبریائی صرف اور صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی سزاوار ہے ۔
خدایا، کون ہے ثانی ۔۔۔۔ ترا سارے زمانے میں
تو ہی تو واحد بے مثل ہے، اس کارخانے میں
تو شاہوں کو گدا کردے، گدا کو بادشاہ کر دے
اشارہ تیرا کافی ہے ۔ گھٹانے اور بڑھانے میں
اے اہل بصیرت، تم ان واقعات سے عبرت حاصل کرو ۔۔۔۔۔ القرآن
------------------------
اتوار1/جولائی
2018

End of the road for Metab Khan in Abbottabad?

By
Published in The Express Tribune, June 30th, 2018

ABBOTTABAD: A total of 31 candidates remain in the running for the two national assembly seats in Abbottabad (NA-15, NA-16) after seven candidates, including Sardar Mehtab Khan, withdrew their candidature from the constituency on Friday, the last day to do so.

After the withdrawal of the papers, the main electoral battle in the district appears to be between the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) and the Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N), as was in the 2013 general elections when one seat of Abbottabad was won the by PTI while the other was won by the PML-N. 




Amongst the notables who withdrew their candidature from the two national assembly seats in the district were Sardar Sheryar Khan, the eldest son of former Khyber-Pakhtunkhwa (K-P) governor Sardar Mehtab Khan who had filed his papers from NA-16. From NA-15, Sardar Mehtab withdrew his papers despite the fact he was considered to be one of the main contenders for the seat. He used to contest from Abbottabad city in the past, which used to fall in the erstwhile NA-17. Mehtab claimed that since eight major union councils of his constituency now fall in NA-15, he had opted to contest from that constituency. He was hopeful of securing a party ticket too.

However, the PML-N instead awarded the ticket for the constituency to former NA speaker Sardar Murtaza Javed Abbasi who staked a claim to the area since his father used to contest and win elections from it in the past. Sardar Mehtab, though, now looks to be without a seat for the upcoming general elections — for the first time since 1985. NA-53 Islamabad, the other seat he had filed his papers for, will see outgoing prime minister Shahid Khaqan Abbasi take on PTI chief Imran Khan. Mehtab used to be a major contender for the PML-N, enjoying close ties with party supremo Nawaz Sharif. However, despite enjoying the post of adviser to the premier on aviation for a significant chunk of the PML-N’s five-year tenure, he seems to have failed in wooing the new string pullers of the party, the former premier’s son-in-law Captain Safdar. The latter has, instead, struck up a partnership with Murtaza PML-N’s provincial chief Amir Muqam. Some observers say this was the best scenario for Shehryar since he is a relative unknown compared to his brother and former provincial lawmaker Sardar Shamoon Mehtab. 


PTI under a cloud


While the PML-N sorts its crisis, the PTI is in the middle of its own crisis. In the 2013 general elections, Dr Azhar Khan Jadoon had won a seat for the party in the area. This time around, former deputy speaker of the national assembly Sardar Muhammad Yaqoob was vying for a ticket from the seat. However, the party instead handed the ticket to Ali Asghar Khan, the son of former Air Marshal Asghar Khan. Unlike Yaqoob, who claims historical family ties to the area, Ali is not considered to be a ‘local’. Yaqoob, thus, is now running as an independent in NA-15. He will face off against Murtaza of PML-N and Ali from the PTI. Other contenders including SM Iqbal of the Muttahida Majlis-e-Amal (MMA) and former PTI lawmaker Ayaz Khan Jadoon. In NA-16, Ali Khan Jadoon from the PTI will take on Mohabat Awan of the PML-N, and independents Ayaz, Shoukat Tanoli and Saeed Mughal.



ہزارہ کے آسمان سیاست کے


 مہتاب 
 کو گرہن کیسے لگ گیا ؟
--------------------------------
نون لیگ کا طاقتور ترین سردار مہتاب ’’سافٹ کو‘‘کا شکار ہو کر فی الوقت اپنے خاندان سمیت سیاسی منظر نامے کے افق پر 38 برس بعد غروب ہونے لگا ۔۔۔۔

--------------------------------
مہتابی آب و تاب کے عہد میں ۔۔۔۔۔۔ ہزارہ کی نونی پارٹی ایک طرح سے جمود کا شکار ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔ پوری ایک نسل انہی چہروں کو دیکھ دیکھ کر جوان ہوئی اور ایک نسل گزر گئی ۔
--------------------------------
اپنے ٹکٹ سے محروم ہوکر ۔۔۔۔ مجبوراً سردار مہتاب کو پی کے 36 سے امیدوار اپنے بھائی سردار فرید اور این اے 16 سے امیدوار اپنے بڑے جواں سال صاحبزادے سردار شہریار خان کا ٹکٹ بھی نااہل لیگ کے بوتھے پر مارنا پڑا ۔
---------------------------------
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ۔۔۔۔۔ ہرکمال کو آخر زوال ہے ۔۔۔۔۔ اور جو لیڈر قوم کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے تو تگ دو کرتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ باعزت طور پر اپنے گھر واپسی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اس سے چھٹکارا پانے کی سوچ جنم لے ہی لیتی ہے ۔
***************************
تجزیاتی رپورٹ بشکریہ 

 محمد صفدر تنولی عباسی
سینئر جرنلسٹ و سابق بیورو چیف بی بی سی ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔ سابق ایڈیٹر روزنامہ ہزارہ ٹائمز ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔ فون نمبر  
  03325585844
03222376216
***************************


 Daily Aaj Abbottabad, 28th June, 2018

ہزارہ میں مسلم لیگ ن کی پہچان تصور کئے جانے والے سردار مہتاب احمد ’’سافٹ کو‘‘کا شکار ہو کر فی الوقت اپنے خاندان سمیت سیاسی منظر نامے سے اوجھل ہونے لگے ،ڈیڑھ بام پر چمکتے مہتاب کو گرہن کیسے لگا ؟اس سارے منظر نامے کو سمجھنے کیلئے قومی منظر نامے کو سمجھنا ضروری ہے ۔

جہاں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قراردئیے جانے اور ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کوپارٹی قیادت سونپے جانے کے بعد نئی صف بندیاں شروع کردی گئیں۔صوبہ خیبرپختونخواہ میں امیر مقام کو پارٹی کا صدر اور مرتضیٰ جاوید عباسی کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا جنہیں مسلم لیگی حلقے کیپٹن صفدرگروپ تصور کیا جاتا ہے ۔یہیں سے صوبہ خیبرپختونخواہ میں اصل تبدیلی کا آغاز ہوا اور پرانے چہرو ں کے بجائے نئے چہروں کو اگلی صفوں میں لانے کیلئے تیاریاں شروع کردی گئیں ۔مسلم لیگ ن ہزارہ میں پیر صابر شاہ ،سردار مہتاب احمد ،سردار محمد یوسف ایسے لوگ تھے جو گذشتہ کئی عشروں سے نہ صرف پارٹی کے ساتھ وابستہ تھے بلکہ انہوں نے دور تک اپنی جڑیں بھی پھیلا رکھی تھیں

اور ایک عام کارکن کے نزدیک پوری پارٹی کا وہی مرکز و محور تھا ،اس طرح دیکھا جائے تو پارٹی ایک طرح سے جمود کا شکار ہوچکی تھی کیوں کہ پوری ایک نسل انہی چہروں کو دیکھ دیکھ کر جوان ہوئی اور ایک نسل گزر گئی ،جبکہ تحریک انصاف جیسی چمک دمک کی حامل پارٹی کی موجودگی میں نئی نسل کو پارٹی کی جانب راغب کرنا ناممکن نظر آرہا تھا ۔شاید اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ن لیگ کی نئی اعلیٰ قیادت نے سب سے پہلے پارٹی کو اوپر سے نیچے کی طرف اصلاح کرنے کی کوشش کی ۔ پہلے مرحلے میں پیر صابر شاہ کو سینیٹرشپ کے ذریعے علاقائی سیاست سے باہر کیا گیا ،جبکہ دوسرے مرحلے پر عین انتخابات کے وقت سردار مہتاب احمد کیلئے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ پہلے وہ این اے 15پر اپنے ٹکٹ سے محروم ہوئے ،پھر مجبوراً انہیں پی کے 36سے امیدوار اپنے بھائی سردار فرید او راور این اے 16پراپنے بیٹے سردار شہریار کا ٹکٹ بھی واپس کرنے کا اعلان کرنا پڑا ۔اس وقت دیکھا جائے تو مانسہرہ میں سردار محمد یوسف کے ساتھ میں ڈنڈا ڈولی کا سلسلہ جاری ہے

اور درپردہ نئے امیدواروں کے ذریعے انہیں سائیڈ لائن کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔تاہم بہتر متبادل ملنے تک اس سیٹ کے ساتھ شاید زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ ہواور ان کے حوالے سے فیصلہ کرنے کیلئے کسی مناسب وقت کا انتظار کیا جائے ۔مسلم لیگ ن خیبرپختونخواہ کی نئی قیادت کے فیصلوں کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔تاہم فوری طور پر کارکنا ن کے موڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وقتی شور شرابے کے بعد قیادت کی رضا میں راضی ہوجائیں گے ۔اور جس انداز میں الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں دھول اڑائی جارہی ہے یہ غبار جلد چھٹ جائے گا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ تمام لیگی قائدین کی پارٹی کیلئے درجہ بدرجہ خدمات رہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اس کا مالی و سیاسی ہر لحاظ سے صلہ بھی وصول کیا ہے

ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ہرکمال کو آخر زوال ہے اور جو لیڈر قوم کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے تو تگ دو کرتا ہے لیکن باعزت طور پر اپنے گھر واپسی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ،کہیں نہ کہیں انہیں پیرپاتسمہ تصور کرتے ہوئے کسی موڑ پر ان سے چھٹکارا پانے کی سوچ جنم لیتی ہے ۔سردار مہتاب احمد اور ان کے خاندان کے سیاسی عمل سے باہر ہونے سے پیدا ہونے والا خلا کیسے پر کیا جائے گااور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟اس کیلئے قوم کو ایک ماہ سے بھی کم انتظار کرنا پڑے گا ۔

سردار مہتاب احمد خان عباسی وزیراعظم کے مشیر ہوا بازی اور چیئرمین پی آئی اے مقرر، منگل صبح نو بجے سرکاری نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا
-------------
ان کی سرکاری عہدہ جوائن نہ کرنے کی قانونی مدت اگست تک باقی تھی تاہم وزیر اعظم نے اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان کی تقرری ممکن بنائی ہے
--------------
سردار مہتاب خان کی اس کے لئے قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، مشرف نے ایک ہزار ایک ترغیبات کے ذریعے اٹک جیل میں سردار مہتاب کے ضمیر کی منڈی لگانے کی کوشش کی مگرسرکل بکوٹ کے اس باضمیر شخص نے یہ تمام ترغیبات اور لالچ اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کرجدہ میں بیٹھے میاں برادران کے ساتھ زندگی کی آخری سانس تک وفا نبھانے کا عہد کیا
--------------
سردار مہتاب نے یہ ثابت کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔ حالات کچھ بھی ہوں، سرکل بکوٹ میں اپنے وطن اور قوم سے غداری کرکے منٹگمری میں مربعے حاصل کرنے والے میر جعفر و صادق  اب پیدا نہیں ہو سکتے

--------------
 راولپنڈی بار میں سردار مہتاب مقدمات لینے اور جیتنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ زیادہ سے زیادہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہوتا مگر وہ کے پی کے کا وزیر اعلیٰ اور گورنر اور اب پی آئی کا چیئرمین ہر گز نہ کہلاتا
*******************
تحقیق و تحریر
 محمد عبیداللہ علوی 
*******************
 فرزند سرکل بکوٹ ۔۔۔۔۔ سابق وزیر اعلیٰ اور گورنر گورنر خیبر پختون خوا سردار مہتاب خان عباسی وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے ہوابازی اور چیئرمین پی آئی اے مقرر کردیئے گئے ہیں اور ان کی تقرری کا 14 فروری 2017 کی صبح نو بجےنوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔قومی سطح کے سیاستدان، وکیل اور صحافی نان سٹاپ اور دھڑا دھڑاپیدا کرنے والی یو سی پلک ملکوٹ سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب عباسی  پی آئی اے کے چئیرمین بھی ہوں گے اور انہیں وفاقی وزیر کے برابر درجہ حاصل ہوگا۔ اس سے قبل یہ عہدہ وفاقی وزیرترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے پاس تھا جنہیں  شجاعت عظیم کے مستعفیٰ ہونے کے بعد اس عہدے کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔مہتاب خان عباسی نے گزشتہ برس پارلیمانی سیاست میں دوبارہ قدم رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو بحیثیت گورنر استعفیٰ پیش کیا تھا جسے انہوں نے منظورکرلیا تھا۔سرکل بکوٹ سے پی آئی اے چیئرمین بننے والے سردار مہتاب پہلے شخص ہیں ۔۔۔۔۔ابھی ان کی سرکاری عہدہ جوائن نہ کرنے کی قانونی مدت اگست تک باقی تھی تاہم وزیر اعظم نے اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان کی تقرری ممکن بنائی ہے۔۔۔۔۔۔ اسے اہلیان سرکل بکوٹ کے نون لیگیوں اور سرداران ملکوٹ کیلئے ۔۔۔۔ یوم حیا ۔۔۔۔ کا تحفہ سمجھنا چائیے۔
مسلم لیگ نون ۔۔۔۔ بلا مبالغہ وفا شعاروں اور یاروں کی یار ۔۔۔۔ حکمران سیاسی جماعت  ۔۔۔۔۔ ہے، سردار مہتاب خان کی اس کے لئے قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، مشرف نے ایک ہزار ایک ترغیبات کے ذریعے اٹک جیل میں سردار مہتاب کے ضمیر کی منڈی لگانے کی کوشش کی مگر ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے اس باضمیر شخص نے یہ تمام ترغیبات اور لالچ اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کرجدہ میں بیٹھے میاں برادران کے ساتھ ۔۔۔۔ زندگی کی آخری سانس تک وفا نبھانے کا عہد کیا ۔۔۔۔ یہ شخص اپنے شجر سے پیوستہ رہا ۔۔۔۔ اسے گورنر شپ کی ڈرائیوری بھی پیش کی گئی اور اب ۔۔۔۔ اسے  وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے ہوابازی اور چیئرمین پی آئی اے ۔۔۔۔ بھی مقرر کیا گیا ہے، یہ اس کی وفائوں کے سامنے بہت حقیر ہے مگر ۔۔۔۔ ؟ سردار مہتاب نے یہ ثابت کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔ حالات کچھ بھی ہوں، سرکل بکوٹ میں اپنے وطن اور قوم سے غداری کرکے منٹگمری میں مربع حاصل کرنے والے میر جعفر و صادق پیدا نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔۔ مگر دیکھ لیجئے، عزت و وقار دینے والے کی عطا ۔۔۔۔  کہ مہتابی وفا کا دوسرا نام ۔۔۔۔۔ کے پی کی گورنری اور وزارت اعلیٰ کے علاوہ پی آئی کی چیئرمینی اور ہوابازی میں وزیر اعظم کی مشاورت ۔۔۔۔ بھی ہے، کون ہے سرکل بکوٹ میں وفائوں کی یہ تاریخ  دوبارہ رقم کرنے والا اور ملک کے ان اعزازات کو 2117  تک حاصل کرنے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اگر کوئی بے وفا، ابن الوقت اور چوری کھانے والا مجنوں خواب میں بھی یہ عزت و شرف حاصل کر سکتا ہے تو سامنے آئے ۔۔۔۔۔؟
کسی علاقے میں جاری سیاسی و سماجی رحجانات اس علاقے کے عام لوگوں بالخصوص وہاں کی لیڈر شپ کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں، ملک بھر میں دیکھ لیجئے کہ جہاں جہاں تعلیمی ادارے، بلدیاتی نمائندے اور دیگر متعلقہ سٹیک ہولڈرز فعال ہونگے وہاں وہاں سوچ میں بھی وسعت، من و تو کے تعصبات سے پاکی اور مقاصد میں بلندی نظر آئیگی، نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوہسار بالخصوص سرکل بکوٹ میں ایسا نہیں ہے بلکہ اگر قدیم نظام سماج کے ساتھ اس کا تقابل کیا جائے تو بھی جواب نفی میں ہو گا، اس میں کچھ اسباب داخلی اور کچھ وجوہات کا تعلق خارجی معاملات سے ہے،دنیا کا کوئی شخص ہو اس کا کوئی نہ کوئی وطن، قبیلہ، مذہب اور سماج ضرور ہوتا ہے، تنہا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات مبارکہ ہے اس طرح سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر اپنے کردار کا تعین کرتا ہے، لیڈر بھی عام لوگوں سے سامنے آتے ہیں، ان میں اور عام آدمی میں فرق صرف سوچ کا ہوتا ہے اور اپنی اپنی قابلیت اور اہلیت کے حوالے سے وہ لیڈر اپنے ان لوگوں کا کی تقدیر لکھتا اور سنوارتا ہے جس سے ان میں اعتماد اور اعتبار ایمان و ایقان کی حد تک پختہ ہو کر اس کی سیاسی قوت بن جاتا ہیں، کیا سرکل بکوٹ میں ایسا ہے… ؟ ماضی کو چھوڑئیے، عصر حاضر کی زندہ تاریخ (Living History) پر ہی ایک نظر ڈالئے تو معلوم ہو گا کہ… نیلسن منڈیلا کسی ترقی یافتہ قوم کا فرد نہیں تھا، اس نے اپنے ہموطنوں کو نسلی امتیاز سے آزاد کرانے کے نصب العین (Noble cause) کے حصول کیلئے اپنی جوانی کو زندان کے حوالے کیا اور پھر منزل عہد پیری (Old age) میں بھی پا لیا، آج وہ جنوبی افریقہ کا باپو (Father of the nation) ہے، محمد یونس ایک عام بنگالی ماہر اقتصادیات ہے، اس نے قوم کو ایک ایسا فارمولا دیا کہ 30 سال کے بد حال بنگلہ دیش کا ہر فرد آج 7,500 ڈالر سالانہ کما رہا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے سرمایہ کار ڈالروں سے بھرے بریف کیسوں کے ساتھ این او سی کیلئے لائنوں میں کھڑے ہیں، ابوالکلام ایک نیم مسلم مگر سیکولر بھارتی سائنس دان تھا، اس نے اپنی دن رات کی محنت سے ملک کو 1974ء میں ایٹمی پاور بنا دیا، ایک پاکستانی محبوب الحق کے فارمولوں اور ویژن نے جنوبی کوریا کو اقتصادی سپر پاور بنایا، مگر وہ پاکستانی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنے ملک میں ناکام رہا، ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے وطن عزیز کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنایا ، جبکہ بھارتی سائنس دان ابولکلام کو اس کی قوم نے صدر مملکت کے منصب جلیلہ پر فائز کر کے اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
کوہسار بالخصوص سرکل بکوٹ کی سیاسی تاریخ آٹھ دہاییوں پر مشتمل ہے اور سوائے 1951-56(حضرت پیر حتیق اللہ بکوٹیؒ)، 1861-68(سردار عنائت الرحمٰن عباسی)، 1977ء کے 100 ایام (شمالی سرکل بکوٹ کی تاریخ میں مختصر ترین عہد کی پیپلز پارٹی کی منتخب قیادت سردار گلزار عباسی) اور 1985 سے تا حال (سردار مہتاب احمد خان کا محور سرکل بکوٹ رہا ہے اور انہیں تیس سالوں کی حکمرانی کا طویل ترین دور بھی ملا ہے اور وہ بھی نیلسن منڈیلا کی طرح چوبیس ماہ کیلئے اٹک قلعہ میں پابند سلاسل رہے ہیں، وہ شخص جو راولپنڈی بار کا ممبر ہوتے ہوئے تین سال تک ایک مقدمہ حاصل نہ کر سکا تھا آج اپنی قابلیت، صلاحیت ، اپنے میر کارواں سے وفا اور نصب العین سے سچائی اور مزید یہ کہ اپنے مقدر (Fate) کی وجہ سے سرکل بکوٹ جیسے پسماندہ علاقے سے خیبر پختونخوا صوبے کے سب سے بڑے منصب گورنری، وزارت اعلیٰ کے بعد اب شہری ہوا بازی میں وزیر اعظم کی مشاورت کیلئے پی آئی اے کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے، ماہرین اقبالیات کہتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے انڈین سول سروس کا امتحان دیا اور اس میں کامیاب بھی ہوا مگر اسے میڈیکلی ان فٹ قرار دیکر مسترد کردیا گیا، اگر علامہ اقبالؒ بیورو کریٹ سلیکٹ ہو جاتے تو ان کے اندر چھپا فلسفی اور مشرق کی شاعری ہلاک ہو جاتی اور وہ شاعر مشرق کہلاتا نہ مفکر پاکستان، اسی طرح اگر راولپنڈی بار میں سردار مہتاب مقدمات لینے اور جیتنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ زیادہ سے زیادہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہوتا مگر وہ کے پی کے کا وزیر اعلیٰ اور گورنر اور پی آئی کا چیئرمین ہر گز نہ کہلاتا، اہلیان سرکل بکوٹ نے سرداران بوئی (سردار حسن علی خان تا سردار عبدالقیوم خان) کا اقتدار بھی دیکھا جس میں جبر اور ظلم زیادہ اور عوامی فلاح و بہبود کم تھی، اس کا متبادل سردار حسن علی خان کے ہی ہم برادری یعنی عثمانی حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ کی صورت میں انہیں ملا، موجودہ سوارگلی بوئی روڈ انہی کا تصور تھا مگر اس عہد کی مرکزی عاقبت نا اندیش قیادت کی وجہ سے ہفتے اور مہینے بعد حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور یہ کام پائیہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا، ایوبی دور حکومت میں سردار عنایت الرحمان عباسی کا جارحانہ طرز سیاست (Agressive nature of politics) نے حکومت مغربی پاکستان کو مقامی فعال قیادت اور شاندار لیڈر شپ کی بدولت اپر دیول کوہالہ روڈ، کوہالہ بکوٹ روڈ، گھوڑا گلی لورہ روڈ اور بیشمار نئے سکول، بنیادی مراکز صحت وغیرہ کی سہولیات حاصل ہوئیں، باغات لگے اور لوگوں کو نقد آور پھلوں کی صورت میں آمدنی کا ایک نیا ریسورس بھی ملا، 1985ء سے تا حال سردار مہتاب احمد خان سرکل بکوٹ کے نویکلے اور بلا شریک حکمران (Solo ruler) ہیں،انہوں نے اپنی 30 سالہ عہد حکمرانی میں سرکل بکوٹ کو کیا کچھ ڈیلیور کیا اس کا ایک اجمالی خاکہ کچھ اس طرح سے ہے۔
٭… سردار مہتاب احمد خان کا تعلق ایک متوسط کاروباری گھرانہ سے ہے، وہ سرکل بکوٹ کے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے، انہوں نے بر سر اقتدار آ کر سب سے پہلے ڈسٹرکٹ بیوروکریسی کو نکیل ڈالی اور انہیں اپنے سرکل بکوٹ کے عوام کی خدمت کا ان کی دہلیز (Doorstep) پر پابند کیا مگر ساتھ ان کی سیاسی اقتدار کی راہداریوں کے سفر کے آغاز ہی میں ہی ایک ہٹو بچو گروپ بھی وجود میں آگیا جو سردار مہتاب کے حوالے سے سرکل بکوٹ کے عوام کے نام پر آٹا، چینی، سیمنٹ، اسلحہ لائسنس اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے پرمٹ منظور کرواتا رہا اور یہ سب چیزیں طورخم کے اس پار جاتی رہیں ۔
٭… سردار مہتاب کے دور میں مری ایبٹ آباد روڈ کی عالمی معیار کے مطابق تعمیر ہوئی، اہلیان سرکل بکوٹ کا سوار گلی بوئی روڈ کا دیرینہ مطالبہ کا بھی نا مکمل تعبیر و تعمیر کا آغاز ہوا، سرکل بکوٹ بھر میں کافی لنک روڈز بھی تعمیر ہوئیں اور ان کی وجہ سے نہ صرف معیار زندگی بہتر ہوا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے، کافی تعداد میں واٹر سپلائی سکیمیں بھی شروع کی گئیں جن میں سے ستر فیصد مکمل بھی ہوئیں،بلکہ سردار مہتاب نے اپنی آبائی یونین کونسل پلک ملکوٹ میں عام لوگوں کو گھروں میں بیت الخلاء بھی بنانے کیلئے فنڈز بھی دئے، دوسری طرف اسی عرصہ میں سرداران ملکوٹ کے چہیتے سیاسی و تعمیراتی ٹھیکیداروں نے بھی زور پکڑا اور وہ تمام تر قوانین، ضابتوں اور قواعد سے بالا تر ہو گئے، کاغذوں اور دستاویزات میں تو سرکل بکوٹ پیرس بن گیا مگر قومی خزانے سے جاری فنڈز ان بے مہار ٹھیکیداروں کی بھینٹ چڑھ گئے، سردار مہتاب کی وزارت اعلیٰ کے ان تعمیراتی و سیاسی ٹھیکیداروں کے 18سال پہلے چھوڑے ہوئے ترقیاتی کام آج بھی اہلیان علاقہ کا منہ چڑھا رہے ہیں۔
٭…سردار مہتاب احمد خان کے بتیس سالوں کے دوران بیروٹ، ایوبیہ اور بکوٹ کے ہائی سکولوں میں ہائر سیکنڈری کلاسز کا اجراء ہوا، مقامی ایم بی بی ایس ڈاکٹروں، ایل ایچ ویز اور معاون پیرا میڈیکل عملہ بی ایچ یوز میں تعینات کیا گیا، کھیرالہ (ملکوٹ)، بیروٹ اور دیگر مقامات پر طبی سہولیات کیلئے عمارات بھی تعمیر ہوئیں لیکن اسی عہد میں ملکوٹ کا بی ایچ یو خرکاروں کے حوالے ہوا جس میں طبی عملہ کے بجائے گدھے بندھے ہوئے ہیں، ایوبیہ ہسپتال میں ڈاکٹر اور نرسیں تو موجود نہیں البتہ اس کے سبزہ زاروں میں گائیں اور بکریاں مٹر گشت کرتی ضرور نظر آتی ہیں، اسی دور میں سرکل بکوٹ بھر میں عطائی ڈاکٹروں کی بھی بھر مار ہوئی، جعلی ادویات کے ڈھیر لگ گئے، سرکاری ڈاکٹر اور دیگر عملہ عام آدمی کے بجائے نون لیگی حکمران ٹولہ کے ذاتی نوکر بن گئے جس کی مثال بکوٹ میں چوہدری ظفیر اور بیروٹ میں ڈاکٹر الیاس شاہ جی کی دی جا سکتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکل بکوٹ کے طبی ادارے تو کھلے رہے، ان میں ڈاکٹر تھے نہ ادویات، دائیاں، وکسینیٹر اور ڈریسر ہی ڈاکٹر بن کر لوگوں کا علاج کرتے رہے، مزید یہ کہ انہی تیس سالوں کے دوران پہلے سے موجود سرکل بکوٹ کے طبی ادارے تعلیمی اداروں کی طرح کھنڈر بنے آج بھی اپنے مقدر کے نوحہ گر ہیں۔
٭…سردار مہتاب کے عہد میں سرکل بکوٹ کو بلا شبہ علیحدہ شناخت ملی اور حکومتی ایوانوں میں اس علاقے کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہو گیا مگر دوسری طرف پہلے سے پساماندہ قرار دئے ہوئے سرکل بکوٹ کو حکومتی سطح پر ترقی یافتہ قرار دیا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ سرکل بکوٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں بالخصوص ماسٹرز، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ایم بی بی ایس ڈاکٹروں پر ضلعی اور صوبائی ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے، پہلے وہ کوٹے پر یہ ملازمتیں پا لیتے تھے مگر اب ان کا ایبٹ آباد کے پڑھے لکھے شہری علاقے سے مقابلہ نا ممکن ہو گیا اور یہ نوجوان اب ملک کے دیگر شہروں میں دھکے کھا رہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ سردار مہتاب کے دور میں نوجوانوں کو روزگار دلوانے میں بھی حکومتی سطح پر مجرمانہ اغماض برتا گیا اور اب وہ وقت آ ہی گیا ہے کہ سردار مہتاب اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سرکل بکوٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو انہیں وہ کچھ  ڈیلیور کریں جس کے وہ مستحق ہیں ۔۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔۔ یہ لمحے زندگی میں بار بار آیا نہیں کرتے
٭…قومی انتخابات میں تحریک انصاف کی متبادل سیاسی قوت کا گزشتہ 30 برسوں سے سنے جانیوالے مسحور کن تحصیل سرکل بکوٹ کے نعرہ کے ساتھ ظہور (Amergence) اور قومی سطح پر پہلی بار کے پی کے کے سابق وزیر اعلیٰ کی شکست کے بعد سردار مہتاب خان اب زندگی کی آخری اننگز کھیل رہے ہیں،  سردار مہتاب احمد خان گورنر شپ کے بعد  اب پی آئیی میں بطور چیئرمین انٹری کوع ان کی وفائوں کا صلہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے بہنوئی سردار ممتاز، فرسٹ کزن اور سمدھی سردار فدا خان ، اپنے چھوٹے صاحبزادے سردار شمعون یار خان اور اب پھر فرسٹ کزن اور ایم پی اے سردار فرید خان کو میدان سیاست میں لائے ہیں، سرکل بکوٹ کے باشعور اور تمام تر سہولیات سے محروم پی ایچ ڈی تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا مستقبل کب تابناک ہو گا۔۔۔۔؟ ہماری علاقائی تاریخ اپنے اندر بصیرت کا بہت بڑا سامان سموئے ہوئے ہے کہ ۔۔۔۔ 1974ء میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ… روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو کبھی زوال آسکتا ہے لیکن آج ماضی کے پیپلز پارٹی کے قائد عوام زندہ باد کے نعرے لگانے والے وہی جیالے… پی ٹی آئی کے پرچم تلے عمران کا نیا پاکستان بنانے کیلئے پرفشاں ہیں، نون لیگ کا کام اور مشن… اچھا تھا یا برا… مکمل ہو چکا ہے… اس نے اپنے باری کی بھی تکمیل کر لی ہے اور یہ فیصلہ خداوندی…کہ…ہم لوگوں پر دن پھیرتے رہتے ہیں… صوفی شاعر میاں محمد بخش کے الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ
سدے نا باغ وچ بلبل بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سدے نا باغ بہاراں
سدے نا ما پے، حسن جوانی، سدے نا صحبت یاراں
****************************
 (Published in The Express Tribune, February 15th, 2017.)
KARACHI: A former governor of Khyber-Pakhtunkhwa, Sardar Mehtab Ahmed Khan Abbasi, has been appointed adviser to the prime minister on aviation with the key objective of turning around fortunes of the loss-making Pakistan International Airlines (PIA). “Originally, the idea was to appoint him as the PIA chairman. The government has now given him a bigger position (of aviation adviser),” a PML-N senator said. A notification issued by the Cabinet Division said the president of Pakistan, on the advice of prime minister, has appointed Sardar Mehtab Ahmed Khan Abbasi as adviser to the prime minister with the status of federal minister with immediate effect. According to a source, he has been appointed adviser on aviation. There was speculation that Abbasi might be given the additional charge of PIA chairman as well. However, the chances of this are dim. Abbasi would head PIA in the capacity of adviser and not as a full-time chairman, it was learnt. Secondly, the PIA chairman must be a member of the board of directors, which he is not, as the board has powers to elect the chairman only and no one else. A close aide of Prime Minister Nawaz Sharif said Abbasi had expressed the desire to head PIA with the objective of fixing its financial problems. “He expressed the interest when the (PML-N) government removed him as Khyber-Pakhtunkhwa governor and appointed Zafar Iqbal Jaghra (in March 2016),” he said. A PIA official added that Abbasi had been attending the airline’s office for over two months now, but not on a regular basis. Federal Aviation Division Secretary Irfan Elahi has been serving as acting PIA chairman since December 2016. Earlier, Azam Saigol resigned from the chairman’s post on December 12, 2016 days after a plane with 47 people on board crashed in Abbottabad minutes after take-off. Cash-strapped PIA reported in October 2016 a 2.3% increase in its accumulated losses to Rs267.56 billion in the quarter ended March 31, 2016. 

 **************

 روزنامہ مسلمان اسلام آباد ۔۔۔۔ 15فروری 2017

Saturday, January 30, 2016

سردار مہتاب احمد خان ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے علاقائی معاملات پر تازہ ترین حیالات
Image may contain: Shoaib Ahmed Abbasi
 روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، 4 جون، 2020ء
***************************
سردار مہتاب طویل ترین اقتدار کے بعد استعفیٰ، اپنی سیاسی زندگی کی آخری اننگز کھیلنے کی تیاریاں
وہ اس عرصہ میں اپنی فیملی میں ہی لیڈرشپ دھونڈتے رہے، سرکل بکوٹ بھر میں کسی کو اس کا اہل نہیں پایا
سردار مہتاب اپنی قابلیت، صلاحیت ، اپنے میر کارواں سے وفا اور نصب العین سے سچائی کی وجہ سے سرکل بکوٹ جیسے پسماندہ علاقے سے خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہیں
سردار مہتاب نے اہلیان علاقہ کے دیرینہ خوابوں کو تعبیر دی ،ساتھ ہی سیاسی اورتعمیراتی ٹھیکیداروں کا مادر پدر آزاد وہ طبقہ بھی پروان چڑھا جو ان کی 30سالہ سیادت و قیادت کی تنزلی کا سبب بن گیا
 1974 میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ… روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو کبھی زوال آسکتا ہے ، نون لیگ کا کام اور مشن… اچھا تھا یا برا… مکمل ہو چکا ہے… اس نے اپنی باری کی بھی تکمیل کر لی ہے

 واقعہ ایک۔۔۔۔۔۔۔۔ سرخیاں دو۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کی بالکل الٹ
حقیقت کیا ہے۔۔۔۔۔۔ فیصلہ آپ خود کریں
******************************
تحریر: محمد عبیداللہ علوی
*****************************
    کسی علاقے میں جاری سیاسی و سماجی رحجانات اس علاقے کے عام لوگوں بالخصوص وہاں کی لیڈر شپ کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں، ملک بھر میں دیکھ لیجئے کہ جہاں جہاں تعلیمی ادارے، بلدیاتی نمائندے اور دیگر متعلقہ سٹیک ہولڈرز فعال ہونگے وہاں وہاں سوچ میں بھی وسعت، من و تو کے تعصبات سے پاکی اور مقاصد میں بلندی نظر آئیگی، نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوہسار بالخصوص سرکل بکوٹ میں ایسا نہیں ہے بلکہ اگر قدیم نظام سماج کے ساتھ اس کا تقابل کیا جائے تو بھی جواب نفی میں ہو گا، اس میں کچھ اسباب داخلی اور کچھ وجوہات کا تعلق خارجی معاملات سے ہے،دنیا کا کوئی شخص ہو اس کا کوئی نہ کوئی وطن، قبیلہ، مذہب اور سماج ضرور ہوتا ہے، تنہا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات مبارکہ  ہے اس طرح سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر اپنے کردار کا تعین کرتا ہے، لیڈر بھی عام لوگوں سے سامنے آتے ہیں، ان میں اور عام آدمی میں فرق صرف سوچ کا ہوتا ہے اور اپنی اپنی قابلیت اور اہلیت کے حوالے سے وہ لیڈر اپنے ان لوگوں کا کی تقدیر لکھتا اور سنوارتا ہے جس سے ان میں اعتماد اور اعتبار ایمان و ایقان کی حد تک پختہ ہو کر اس کی سیاسی قوت بن جاتا ہیں، کیا سرکل بکوٹ میں ایسا ہے… ؟ ماضی کو چھوڑئیے، عصر حاضر کی زندہ تاریخ (Living History) پر ہی ایک نظر ڈالئے تو معلوم ہو گا کہ… نیلسن منڈیلا کسی ترقی یافتہ قوم کا فرد نہیں تھا، اس نے اپنے  ہموطنوں کو نسلی امتیاز سے آزاد کرانے کے نصب العین (Noble cause) کے حصول کیلئے اپنی جوانی کو زندان کے حوالے کیا اور پھر منزل عہد پیری (Old age) میں بھی پا لیا، آج وہ جنوبی افریقہ کا باپو (Father of the nation) ہے، محمد یونس ایک عام بنگالی ماہر اقتصادیات ہے، اس نے قوم کو ایک ایسا فارمولا دیا کہ 30 سال کے بد حال بنگلہ دیش کا ہر فرد آج 7,500 ڈالر سالانہ کما رہا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے سرمایہ کار ڈالروں سے بھرے بریف کیسوں کے ساتھ این او سی کیلئے لائنوں میں کھڑے ہیں، ابوالکلام ایک نیم مسلم مگر سیکولر بھارتی سائنس دان تھا، اس نے اپنی دن رات کی محنت سے ملک کو 1974ء میں ایٹمی پاور بنا دیا، ایک پاکستانی محبوب الحق کے فارمولوں اور ویژن نے جنوبی کوریا کو اقتصادی سپر پاور بنایا، مگر وہ پاکستانی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنے ملک میں ناکام رہا، ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے وطن عزیز کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنایا مگر اسی وطن کے جاگیر دار اور قومی وژن سے تہی دست نیم خواندہ سیاستدانوں نے اس قومی ہیرو کو کھڈے لائن لگا دیا، جبکہ بھارتی سائنس دان ابولکلام کو اس کی قوم نے صدر مملکت کے منصب جلیلہ پر فائز کر کے اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔     سرکل بکوٹ کی سیاسی تاریخ آٹھ دہاییوں پر مشتمل ہے اور سوائے  1951-56(حضرت پیر حتیق اللہ بکوٹیؒ)، 1861-68(سردار عنائت الرحمٰن عباسی)، 1977ء کے 100 ایام (شمالی سرکل بکوٹ کی تاریخ میں مختصر ترین عہد کی پیپلز پارٹی کی  منتخب قیادت سردار گلزار عباسی) اور 1985 سے تا حال (سردار مہتاب احمد خان وخاندان سرداران ملکوٹ) کا محور سرکل بکوٹ رہا ہے اور انہیں تیس سالوں کی حکمرانی کا طویل ترین دور بھی نصیب ہوا ہے اور وہ بھی نیلسن منڈیلا کی طرح چوبیس ماہ کیلئے اٹک قلعہ میں پابند سلاسل رہے ہیں، وہ شخص جو راولپنڈی بار کا ممبر ہوتے ہوئے تین سال تک ایک مقدمہ حاصل نہ کر سکا تھا آج اپنی قابلیت، صلاحیت ، اپنے میر کارواں سے وفا اور نصب العین سے سچائی اور مزید یہ کہ اپنے مقدر (Fate) کی وجہ سے سرکل بکوٹ جیسے پسماندہ علاقے سے خیبر پختونخوا صوبے کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہے،ماہرین اقبالیات کہتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے انڈین سول سروس کا امتحان دیا اور اس میں کامیاب بھی ہوا مگر اسے میڈیکلی ان فٹ قرار دیکر مسترد کردیا گیا، اگر علامہ اقبالؒ بیورو کریٹ سلیکٹ ہو جاتے تو ان کے اندر چھپا فلسفی اور مشرق کی شاعری ہلاک ہو جاتی اور وہ شاعر مشرق کہلاتا نہ مفکر پاکستان، اسی طرح اگر راولپنڈی بار میں سردار مہتاب مقدمات لینے اور جیتنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ زیادہ سے زیادہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہوتا مگر وہ کے پی کے کا وزیر اعلیٰ اور گورنر ہر گز نہ کہلاتا، اسی کی یونین کونسل پلک ملکوٹ کے ایک سینئر وکیل حبیب الرحمٰن عباسی ایڈووکیٹ سرکل بکوٹ میں الیکشن لڑ لڑ کر نہ صرف تھک گئے ہیں بلکہ مایوس ہو کر اپنے دو ووٹوں کے ساتھ مکمل طور پر راولپنڈی بھی منتقل ہو چکے ہیں۔
سردار مہتاب احمد خان گورنری کے استعفے کے بعد آرمی چیف جنرل راھیل شریف سے جی ایچ کیو راولپنڈی میں الوداعی ملاقات کر رہے ہیں
    اہلیان سرکل بکوٹ نے سرداران بوئی (سردار حسن علی خان تا سردار عبد القیوم خان کا اقتدار بھی دیکھا جس میں جبر اور ظلم زیادا اور عوامی فلاح و بہبود کم تھی، اس کا متبادل سردار حسن علی خان کے ہی ہم برادری یعنی عثمانی حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ کی صورت میں انہیں ملا، موجودہ سوارگلی بوئی روڈ انہی کا تصور تھا مگر اس عہد کی مرکزی عاقبت نا اندیش قیادت کی وجہ سے ہفتے اور مہینے بعد حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور یہ کام پائیہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا، ایوبی دور حکومت میں سردار عنایت الرحمان عباسی کا جارحانہ طرز سیاست (Agressive nature of politics) نے حکومت مغربی پاکستان کو مقامی فعال قیادت اور شاندار لیڈر شپ کی بدولت اپر دیول کوہالہ روڈ، کوہالہ بکوٹ روڈ، گھوڑا گلی لورہ روڈ اور بیشمار نئے سکول، بنیادی مراکز صحت وغیرہ کی سہولیات حاصل ہوئیں، باغات لگے اور لوگوں کو نقد آور پھلوں کی صورت میں آمدنی کا ایک نیا ریسورس بھی ملا، 1985ء سے تا حال سردار مہتاب احمد خان سرکل بکوٹ کے نویکلے اور بلا شریک  حکمران (Solo ruler) ہیں،انہوں نے اپنی 30 سالہ عہد حکمرانی میں سرکل بکوٹ کو کیا کچھ ڈیلیور کیا اس کا ایک اجمالی خاکہ کچھ اس طرح سے ہے۔
سردار مہتاب کے استعفیٰ کے جواب میں وزیر اعظم کا خط
٭… سردار مہتاب احمد خان کا تعلق ایک متوسط کاروباری گھرانہ سے ہے، وہ سرکل بکوٹ کے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے، انہوں نے بر سر اقتدار آ کر سب سے پہلے ڈسٹرکٹ بیوروکریسی کو نکیل ڈالی اور انہیں اپنے سرکل بکوٹ کے عوام کی خدمت کا  ان کی دہلیز (Doorstep) پر پابند کیا مگر ساتھ ان کی سیاسی اقتدار کی راہداریوں کے سفر کے آغاز ہی میں  ہی ایک ہٹو بچو گروپ بھی وجود میں آگیا جو سردار مہتاب کے حوالے سے سرکل بکوٹ کے عوام کے نام پر آٹا، چینی، سیمنٹ، اسلحہ لائسنس اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے پرمٹ منظور کرواتا رہا اور یہ سب چیزیں طورخم کے اس پار جاتی رہیں بلکہ اسلام آباد اور مری پولیس کو ڈرا دھمکا کر قانونی اور ممنوعہ بور کا اسلحہ بھی سرکل بکوٹ میں امپورٹ کیا جاتا رہا،1986ء سے تاحال بکوٹ پولیس تو ان کے گھر کی لونڈی ہے۔
٭… سردار مہتاب کے دور میں مری ایبٹ آباد روڈ کی عالمی معیار کے مطابق تعمیر ہوئی، اہلیان سرکل بکوٹ کا سوار گلی بوئی روڈ کا دیرینہ مطالبہ کا بھی نا مکمل تعبیر و تعمیر کا آغاز ہوا، سرکل بکوٹ بھر میں کافی لنک روڈز بھی تعمیر ہوئیں اور ان کی وجہ سے  نہ صرف معیار زندگی بہتر ہوا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے، کافی تعداد میں واٹر سپلائی سکیمیں بھی شروع کی گئیں جن میں سے ستر فیصد مکمل بھی ہوئیں،بلکہ سردار مہتاب نے اپنی آبائی یونین کونسل پلک ملکوٹ میں عام لوگوں کو گھروں میں بیت الخلاء بھی بنانے کیلئے فنڈز دئے، دوسری طرف اسی عرصہ میں سرداران ملکوٹ کے چہیتے سیاسی و تعمیراتی ٹھیکیداروں نے بھی زور پکڑا اور وہ تمام تر قوانین، ضابتوں اور قواعد سے بالا تر ہو گئے، کاغذوں اور دستاویزات میں تو سرکل بکوٹ پیرس بن گیا مگر قومی خزانے سے جاری فنڈز ان بے مہار ٹھیکیداروں کی بھینٹ چڑھ گئے، سردار مہتاب کی وزارت اعلیٰ کے ان تعمیراتی و سیاسی ٹھیکیداروں کے 18سال پہلے چھوڑے ہوئے ترقیاتی کام آج بھی اہلیان علاقہ کا منہ چڑھا رہے ہیں۔
٭…سردار مہتاب احمد خان کے تیس سالوں کے دوران بیروٹ، ایوبیہ اور بکوٹ کے ہائی سکولوں میں ہائر سیکنڈری کلاسز کا اجراء ہوا، مقامی ایم بی بی ایس ڈاکٹروں، ایل ایچ ویز  اور معاون پیرا میڈیکل عملہ
 بی ایچ یوز میں تعینات کیا گیا، کھیرالہ (ملکوٹ)، بیروٹ اور دیگر مقامات پر طبی سہولیات کیلئے عمارات بھی تعمیر ہوئیں لیکن اسی عہد میں ملکوٹ کا بی ایچ یو خرکاروں کے حوالے ہوا جس میں طبی عملہ کے بجائے گدھے بندھے ہوئے ہیں، ایوبیہ ہسپتال میں ڈاکٹر اور نرسیں تو موجود نہیں البتہ اس کے سبزہ زاروں میں گائیں اور بکریاں مٹر گشت کرتی ضرور نظر آتی ہیں، اسی دور میں  سرکل بکوٹ بھر میں عطائی ڈاکٹروں کی بھی بھر مار ہوئی، جعلی ادویات کے ڈھیر لگ گئے، سرکاری ڈاکٹر اور دیگر عملہ عام آدمی کے بجائے نون لیگی حکمران ٹولہ کے ذاتی نوکر بن گئے جس کی مثال بکوٹ میں چوئدری ظفیر اور بیروٹ میں ڈاکٹر الیاس شاہ جی کی دی جا سکتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکل بکوٹ کے طبی ادارے تو کھلے رہے، ان میں ڈاکٹر تھے نہ ادویات، دائیاں،  وکسینیٹر اور ڈریسر ہی ڈاکٹر بن کر  لوگوں کا علاج کرتے رہے، اگر کوئی زندہ رہا تو یہ اس کی قسمت  تھی، مزید یہ کہ  انہی تیس سالوں کے دوران پہلے سے موجود سرکل بکوٹ کے طبی ادارے تعلیمی اداروں کی طرح کھنڈر بنے آج بھی اپنے مقدر کے نوحہ گر ہیں۔
٭…سردار مہتاب کے عہد میں سرکل بکوٹ کو بلا شبہ علیحدہ شناخت ملی اور حکومتی ایوانوں میں اس علاقے کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہو گیا مگر دوسری طرف پہلے سے پساماندہ قرار دئے ہوئے سرکل بکوٹ کو حکومتی سطح پر ترقی یافتہ قرار دیا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ سرکل بکوٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں بالخصوص اماسٹرز، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ایم بی بی ایس ڈاکٹروں پر ضلعی اور صوبائی ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے، پہلے وہ کوٹے پر یہ ملازمتیں پا لیتے تھے مگر اب ان کا ایبٹ آباد کے پڑھے اکھے شہری علاقے سے مقابلہ نا ممکن ہو گیا اور یہ نوجوان اب ملک کے دیگر شہروں میں دھکے کھا رہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ سردار مہتاب کے دور میں نوجوانوں کو روزگار دلوانے میں بھی حکومتی سطح پر مجرمانہ اغماض برتا گیا اور اگر کسی کو ملازمت ملی بھی یو اپنی کوششوں پر، سرداران ملکوٹ کا اس میں کوئی حصہ نہیں یھا۔
٭…قومی انتخابات میں تحریک انصاف کی متبادل سیاسی قوت کا گزشتہ 30 برسوں سے سنے جانیوالے مسحور کن تحصیل سرکل بکوٹ کے نعرہ کے ساتھ ظہور (Amergence) اور قومی سطح پر پہلی بار کے پی کے کے سابق وزیر اعلیٰ کی شکست اور ایک بار پھر جدونوں کی سرکل بکوٹ پر گرفت نے ملکوٹ کا مورال اس قدر پسپا کر دیا ہے کہ سردار مہتاب خان اب زندگی کی آخری اننگز بطور غیر فعال کپتان کھیل رہے ہیں، ہمارے نوجوان دوست اور ملکوٹ سے تعلق رکھنے والے صحافی عاطف خالد ستی کے اس انکشاف کے بعد کہ… سردار مہتاب احمد خان گورنر شپ کے بعد سیاست سے ریٹائر ہو جائیں گے…نون لیگ سرکل بکوٹ  کیلئے سٹیٹس کو (جمود) کی کیفیت میں چلی گئی ہے، اسے ایک المیہ (Tregedy) ہی کہا جا سکتا ہے کہ سردار مہتاب لیڈر شپ کو اپنے ٹبر (Family) میں ہی تلاش کرتے رہے مگر وہ سرکل بکوٹ میں اپنے جیسا لیڈر پیداکرنے میں ناکام رہے ہے،  انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے بہنوئی سردار ممتاز، فرسٹ کزن اور سمدھی سردار فدا خان ، اپنے چھوٹے صاحبزادے سردار شمعون یار خان اور اب پھر فرسٹ کزن اور ایم پی اے سردار فرید خان کو میدان سیاست میں لائے ہیں، سرکل بکوٹ کے باشعور اور تمام تر سہولیات سے محروم پی ایچ ڈی تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں کی ڈیڑھ لاکھ کی آبادی میں کوئی شخص ایسا نہیں جو سیاسی بصیرت اور تجربے میں سرداران ملکوٹ کا ہم پلہ ہو اور کم از کم ایم پی اے شپ کا ہی اہل ہو، لیڈر شپ کے اس فقدان کے باعث جہاں سرکل بکوٹ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح پھر جدونوں  کی گود میں گرتا نظر آ رہا ہے اور سیاسی موروثیت (Political inheritance) پھر بھیس بدل کر سرکل بکوٹ پر مسلط ہونا چاہتی ہے اس کا اندازہ گورنر کی اس کوشش سے لگایا جا سکتا
 پے کہ اتنے بڑے منصب کا حامل شخص چند ناقص خیالات کے نون لیگیوں کی انا کی تسکین کیلئے اپنے حلقہ نیابت میں محض لنک روڈز کی تختیوں پر تختیاں لگانے آیا…؟ اورکسی فنڈز کا بھی اعلان نہیں کیا،  اب گورنر کی سیاسی ناکامی کا سبب بننے والے  یہ سیاسی و تعمیراتی ٹھیکیدار اور ہٹو بچو گروپ اب ان کی رہی سہی ساکھ کو بھی مٹی میں ملا رہا ہے، ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ کی چند مرلے زمین کے بٹوارے کیلئے دو روز تک بکوٹ پولیس کو بیروٹ میں جس طرح مصروف رکھا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ سکول کی زلزلہ سے متاثرہ متنازعہ عمارت کی تکمیل کے بعد بس اب ڈگری کالج کی عمارت تعمیر ہوا ہی چاہتی ہے… مگر… اس پروپیگنڈے کا تاثر اتنا منفی نکلا کہ… توبہ ہی کی جا سکتی ہے، 1974ء میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ… روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو کبھی زوال آسکتا ہے لیکن آج ماضی کے پیپلز پارٹی کے قائد عوام زندہ باد کے نعرے لگانے والے وہی جیالے… پی ٹی آئی کے پرچم تلے عمران کا نیا پاکستان بنانے کیلئے پرفشاں ہیں، نون لیگ کا کام اور مشن… اچھا تھا یا برا… مکمل ہو چکا ہے… اس نے اپنے باری کی بھی تکمیل کر لی ہے اور  یہ فیصلہ خداوندی…کہ…ہم  لوگوں پر دن پھیرتے رہتے ہیں… صوفی شاعر میاں محمد بخش کے الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ
سدے نا باغ وچ بلبل بولے....... سدے نا باغ بہاراں
سدے نا ما پے، حسن جوانی، سدے نا صحبت یاراں


************* 

ہم سب کے ۔۔۔۔۔ سوچنے کیلئے اہم ترین بات ۔۔۔۔۔؟

*********************************************
جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد ۔۔۔۔۔۔ کوہسار کی سیاست میں اتار چڑائو ۔۔۔۔۔۔۔ ایک اہم سوال کہ ۔۔۔۔۔ ہم خون دینے والے مجنوں ہیں یا دودھ پینے والے ۔۔۔۔۔؟
-----------------
شاہد خاقان عباسی اپنے لیڈر کے دفاع میں فرنٹ لائن پر ۔۔۔۔۔۔ سردار مہتاب احمد خان کہاں ہیں؟

 *********************************************
وزیر اعظم کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔۔؟ اس کا انحصار تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہے مگر جے آئی ٹی نے اس کیس میں شریفوں کی طرف سے پیش کی جانے والی سب دستاویزات کو جعلی قرار دے دیا ہے اور مریم نواز صفدر کو آف شور کمپنیوں کا مالک بھی ثابت کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد شریفوں کے ساتھ کیا ہو گا اس کی تفصیلات لمحہ موجود میں دنیا میں آنے والا کوئی پاکستانی بچہ بھی سمجھنے سے قاصر نہیں ۔۔۔۔۔ اس کے بر عکس ایک اور سوال جو صبح سے ابھی تک کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ اس اہم اور پر آزمائش وقت میں سردار مہتاب احمد خان اور شاہد خاقان عباسی کا اپنے لیڈر کے ساتھ آنے والے دنوں میں رویہ کیا ہو گا ؟
ہم پچھلے 32 سالوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اس بیتے عرصے میں ان دونوں فرزندان کوہسار کا قیادت کے ساتھ رابطہ اور حاصل وصول کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں ۔
******* شاہد خاقان عباسی، سابق پاکستانی امیرالمومنین اور طالبان کی نر سری لگانے والے جنرل ضیا الحق کے قریب ترین ساتھی ایئر کموڈور خاقان عباسی شہید کے فرزند اُخریٰ ہیں، وہ جونیجو کابینہ کے حاضر سروس وفاقی وزیر پٹرولیئم کی حیثیت سے سانحہ اوجڑی کیمپ کے نتیجے میں اپنے رب کے پاس پہنچ گئے ۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ ان کے فرزند اولیٰ بھی لائف ٹائم معذور ہوئے اور یوں اس فیملی کے دو اہم ارکان کے منظر سے ہٹنے کے بعد شاہد خاقان عباسی کو بوئنگ کی پائیلٹ سیٹ چھوڑ کر این اے 50 کی پرخار نشست پر بیٹھنا پڑا ۔۔۔۔۔ یہ تو پتا نہیں کہ انہوں نے عوام علاقہ کو کتنا ڈیلیور کیا مگر عوام علاقہ نے بھاری منڈیٹ کے ساتھ ۔۔۔۔۔ شاہد خاقان عباسی کو ایک بار بھی مایوس نہیں کیا ۔۔۔۔۔ نواز شریف پر اس کڑے وقت میں شاہد خاقان عباسی ان کے اچھے یا برے دفاع میں فرنٹ لائن پر سرگرم نظر آ رہے ہیں بلکہ جے آئی ٹی رپورٹ کو رد کرنے میں بھی ان کا کردار خاصا اہم ہے۔
دوسرے فرزند کوہسار ۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے ملکوٹی سردار مہتاب احمد خان ہیں ۔۔۔۔۔ انہیں اپنے والد کی طرف سے موروثیت میں سرکل بکوٹ میں قائدانہ کردار نہیں ملا تاہم پنڈی کچہری میں وکالت میں بری طرح ناکامی کے بعد سیاست میں انٹری اور ایم پی اے سے گورنری تک کے تک پہنچنے کی منزل میں ان کے چچا حاجی سرفراز خان مرحوم کی کم و بیش نصف صدی کی کانڈھاں میں سیاسی محنت کو ضرور کریڈٹ دے سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پلک میں اپنے ایک بہنوئی کے 1956 میں قتل کے بعد حاجی صاحب نے یہ جان لیا تھا کہ سیاسی اقتدار انہیں اور ان کی فیملی کو سپر مین بنا کر نہ صٓرف انہیں زندگی اور عزت و آبرو کا تحفظ دے سکتا ہے بلکہ ۔۔۔۔۔ انہیں علاقائی سیاسی اعتبار اور اعتماد کی ناقابل تسخیر قوت اور طاقت بھی عطا کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ حاجی صاحب کے اس خواب کو سردار مہتاب خان نے عملی تعبیر دی ۔۔۔۔۔ مگر اس عملی تعبیر کی سیڑھی نون لیگ نے انہیں فراہم کی ۔۔۔۔۔ سردار مہتاب خان کو ان کی اپنی قابلیت، اپنے اچھے برے قائد کے ساتھ وفاداری کے رشتے پر استوار دائمی رفاقت اور سب سے بڑھ کر اٹک جیل کے پھیرے نے ان کی اپنی پارٹی کی ہائی کمان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی کہ ۔۔۔۔۔ نون لیگ نے اگر کے پی کے میں زندہ رہنا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ سردار مہتاب احمد خان ۔۔۔۔۔ کے اشارہ آبرو پر پالیسی سازی از حد ضروری ہے، یہی وجہ تھی کہ ۔۔۔۔۔۔ فرزند سرکل بکوٹ کو رائے ونڈ کو پہلے وزیر اعلیٰ اور آخر میں گورنر بھی بنانا پڑا ۔۔۔۔۔۔ نون لیگ نے ملکوٹ کے سردار مہتاب کو اپنی نوازشات سے ان مناصب تک پہنچایا تو ۔۔۔۔۔ اب ۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کو کچھ دیں یا نہ دیں مگر ۔۔۔۔۔ اب انہیں اپنے لیڈر کو اپنے اوپر کئے جانے والے احسانات واپس لوٹانے کا ٹائم آ گیا ہے ۔۔۔۔۔ کیا کوہسار کا یہ ماہتاب (چاند) نواز شریف کی متوقع تاریک راتوں کو روشن کر سکے گا ۔۔۔۔۔۔؟
نواز شریف نے بڑی آزمائشیں دیکھی ہیں مگر ان میں کہیں بھی ۔۔۔۔۔ سردار مہتاب احمد خان ۔۔۔۔۔ کو شاہد خاقان عباسی کی طرح اپنے قائد کے حق میں فرنٹ لائن دفاعی حصار پر آج تک نہیں دیکھا گیا ۔۔۔۔۔ ہم اہلیان سرکل بکوٹ کا سردار صاحب کو یہ صائب مشورہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ آپ این اے 17 اور پی کے 45 کو کچھ ڈیلیور کریں یا نہ کریں مگر وقت آپ کو آواز دے رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ جس نواز شریف نے آپ کو اتنا، اتنا، اتنا نوازہ ۔۔۔۔۔ اگر وہ متوقع دور ابتلا میں آپ کو پکارے، اسے آپ کی ضرورت ہو ۔۔۔۔۔۔ تو وفائوں کی وہ کہانی، جسے رقم کرنے کا آپ کا ہی خاصا ہے ۔۔۔۔۔ اس کی لاج رکھئیے گا اور پروانہ وار اس پر نچھاور ہو جائیگا ۔۔۔۔۔۔ اہلیان سرکل بکوٹ اور ان کی آئندہ نسلوں کو شرمندہ کئے بغیر ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیونکہ سرکل بکوٹ کی سرزمین اس حکم خداوندی پر ایمان رکھتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (سورۃ الرحمٰن)
روزنامہ دنیا لاہور ۔۔۔۔۔۔ 12جولائی، 2017

Friday, November 29, 2013

The latest views of Sardar Mehtab Ahmd Khan
  on 3rd June, 2020
Image may contain: 4 people
 on 4th June, 2020
Image may contain: Shoaib Ahmed Abbasi


has taken oath as KPK Governor on Tuesday, April 15th at 5.46 PM
<Read More>
<Read More in a inside exclusive story>
<Other stories behind the scene> 
<Governor House Peshawer>
 

 12th April, 2014
 PIA Chairman notification on 14th Feb, 2017
 ****************************************
 روزنامہ محاسب ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔ 26 جون 2018
Sardar Mehtab addressing a press conference in Peshawar (29th Jan, 2014)

****************************************
Sardar Mehatb Ahmed Khan
First national leader from Circle Bakote

****************************************

Sardar Mehtab Ahmed Khan.... As I witnessed him
There are a dignified political tradition of politics in Circle Bakote. From Hazrat Pir Atiqullah Bakoti (1947-68) to Sardar Mehtab Ahmed Khan (1985 to present time) a chain of events came in to being which introduced a social, political, intellectual and leadership adulthood in people of Circle Bakote. We have recognized that Sardar Mehtab Ahmed Khan is a national political icon and first chapter of POLITICAL HISTORY OF CIRCLE BAKOTE. Why......? Because he won the CHIEF MINISTERSHIP of NWFP (KPK now) and conrested for PRIMIERSHIP of Islamic Republic of Pakistan in first time of 5,000 years of Kosar of Circle Bakote. It is not necessary to agree witth his political views as Mahtabism Doctriene of more than three decades leadership without any break but it is reality that he is faithful fellow of his bosses, voters and party workers as a son of soil.How much he delivered to his motherland, it will be decided by next generation history writers. This article is based on Wikipedia article and his imagines collected from his lovers. It is a honor for me that me and my oldest and faithful journalist comrade Tariq Nawaz Abbasi interviewed him in 1986 first time and published in Weekly Musalman Islamabad and Weekly Hill Post Karachi. We continuously interacted with him and write about his merits and demerits as a leader since three decades. Me and my loved friend Isteaq Abbasi (Exective Editor of Weekly Hill Star Islamabad interviewed him in 2011 in detaile and published it in Daily Azkar Islamabad. I also termed his long political career as MAHTABISM.

Searched, compiled and written by
MOHAMMED OBAIDULLAH ALVI
(Journalist, Historian & Anthropologist)

Sardar Mehtab Ahmed Khan is legend of Circle Bakote who takes oath of Chief Minister Ship of NWFP first time in history. He belonged to Bodhrhal sub-sect of Dhond Abbasi tribe. His mother belonged to Chandal sub-sect of Dhond abbasi tribe and first cousin of renowned Kashmiri fighter and ex-president of Pakistan administered Azad Kashmir Sardar A Qayyom Khan. He metric from Osia High School and graduation from Sir Syed School Rawalpindi, then he LLB and practiced in courts in Rawalpindi. He was not a shining lawyer so he worked with his fader cloth shop. His uncle Sardar Sarfraz Khan contested many more local election but never won. He Promote young Sardar Mehtab and he won election first time in his life in 1985. He got popularity among the people of Circle Bakote and succeeded every election until now. He takes oath as Chief Minister of NWFP in 1997 and change the whole climate of Circle Bakote. He provides facility of PTCL phone, water supply schemes, link roads especially Kohala-Molia road, Sowargali Boi road, Birote Kalan and Khurd Road and Osia Malkote road. He constructed Murree Abbottabad road as motorway and upgraded high schools in Ayubia, Birote and Bakote. His government ended by military revolution of 12 October 1998 and he arrested from Parachinar. He trailed in Wheat Scandal Case in Attock Fort. He is senator now. He opposed for ticket of PML (N) for a candidature of Sardar Idrees Khan of Karhal tribe of Galiyat to Nawaz Shari, Ex-Prime Minister of Pakistan in 2002 genral election, but he won as MPA of NWFP assembly, joined Majlis-e-Amel (MMA), and takes oath of local bodies minister ship in provincial cabinet. For further details please study Weekly Hill Post Abbottabad, that not survived after Sardar Mehtab went behind the bars. This weekly was his spoksman and it is true that Sardar Mehtab never won the highest post of leader ship in NWFP if mentioned weekly would not help him in promoting him politically in Circle Bakote and in the whole province. 'he said in his first speech as CM in assembly and notified that the Word <Abbasi> not added with his name. He always had been wrote in news and official document as Sardar Mehtab Ahmed Khan'. He take action against Abdul Qayom Khan of Boi, Zafir Abbasi, a journalist from Birote, and many others his political as well as family apponents as Sahibzada Pir Azhar Bakoti the grand son of Hadhrat Pir Faqir-u-llah Bakoti. He creaded a dispute and araised the question of ownership and income of shrien among real brothers Sahibzada Azhar Bakoti and Pir Zahir Bakoti. The tension created not only differences between them but also among their followers. At last, in very short words it is no doubt that Sarda Mehtab has paid his debt of motherland Circle Bakote as a son of soil. To meet Wikipedias quality standards, this article or section may require cleanup. ... North-West Frontier Province (NWFP) is geographically the smallest of the four provinces of Pakistan. ... Azad Kashmir (Urdu: آزاد کشمیر), is part of the Pakistani section of the state of Jammu and Kashmir, along with the Northern Areas; its official name is Azad Jammu and Kashmir. ... The Hill Post THE HILLPOST was a prestigious and first political and social weekly of Circle Bakote and Murree Hills. ... 

Character in democracy


Sardar Mehtab Khan is close companion of ex-prime minister Nawaz Sharif and a good carier in national democracy. In an article Daily Frontier Post Peshawer on 1st July 2006 write <A national level Non-Governmental Organization, Aurat Foundation, has arranged a face-to-face dialogue on Charter of Democracy? here at the Peshawar Press Club on Monday (June 26) at 2 pm. To be organized under the Legislative Watch Programme of the foundation, Mr Nasirullah Khan Babar, a former interior minister, governor of NWFP and senior leader of Pakistan Peoples Party Parliamentarians, and Senator Sardar Mehtab Ahmad Khan, a leader of the Pakistan Muslim League (Nawaz) and an erstwhile provincial chief minister, will be the main speakers on the occasion. The registration of the participants will be from 1:30 pm to 2:00 pm. Aurat Foundation Resident Director Ms Rukhshanda Naz will briefly talk about the objectives of the dialogue. Nasirullah Khan Babar and Sardar Mehtab Ahmad Khan will explain the ?Charter of Democracy? in detail from 2:10 pm to 3:10 pm. It will be followed by a panel discussion from 3:10 pm to 4:30 pm. Ms Rukhshanda Naz, representing the NGO sector, Mohammad Riaz, a senior journalist, Dr Sarfaraz, an academician who teaches Business Ethics at the Area Study Center, University of Peshawar, and an eminent religious scholar, Dr Mohammad Farooq Khan, will form the group of panelists. The Question-Answer session will span one hour --- from 4:30 pm to 5: 30 pm, preceded by the 10-minute-long concluding remarks by AF regional head. The invitees to the event are woman members of the NWFP Assembly, parliamentary leaders of eight different political parties, woman councilors, the civil society representatives, including lawyers and academicians.It may be mentioned here that the 36-point Charter of Democracy? was signed by former prime ministers Mohtarma Benazir Bhutto (PPPP) and Mr Nawaz Sharif (PML-N) in London on May 14, 2006 to make, as the signatories to the document said, Pakistan a truly democratic state. The charter has sparked a war of words between the proponents and opponents of the covenant, both giving out statements and counter-statements in the national and regional Press.> The News Islamabad wrote on August 27, 2005 that <Ruling Pakistan Muslim League has won majority 32 out of 51 union nazim seats in local government elections in district Abbottabad confronting PML-Nawaz with an unprecedented defeat, which claims to have roots in the area but got only 9 seats followed by Jamaat-e-Islami, PPP-Parliamentarians and PPP-Sherpao.According to unofficial results, Sardar Hyder Zaman group backed by Federal Minister for Petroleum Ammanullah Khan Jadoon has now made smooth sailing to get the slot of district as well as tehsil nazims.Abbottabad which was considered a strong hold of PML-N faced a set back as almost all their stalwarts were defeated despite the fact that former chief minister Sardar Mehtab Ahmed Khan was actively remain involved in the election process. Even, PML-N backed candidates failed to get a single seat from the home constituency of Sardar Mehtab Ahmed Khan.Nine former nazims were able to retain their seats. They include Shaukat Ali, Saeed Mughal, Azam Khan, Ashraf Khan, Sarfraz Abbassi, Arshid Abbassi, Sardar Gulzar Abbassi, Nazeer Abbassi, Malik Habib Ahmad and Abdur Razaq Abbassi. Except Abdur Razaq Abbassi, all elected nazims belongs to Sardar Hyder Zaman group.> according to Dawn Karachi on 29 August, 2002 the officeers of PML-N's different wings and members of provincial council have expressed concern over the allotment of party tickets for PF-44 and PF-46 and urged the central leadership to "save the party from complete collapse." Speaking at a press conference on Wednesday, they charged that Sardar Mehtab Ahmed Khan had caused more damage to the party in three days than what the government had managed in three years. They lamented that for PF-46, the ticket had been awarded to Malik Manzoor Hussain Advocate, ex-assistant advocate general, NWFP, who had not even applied for it while for the Abbottabad city seat, the ticket had been given to Inayat Iqbal Khan Jadoon, son of former NWFP chief minister, the late Iqbal Khan Jadoon, who had not yet filled out the party's basic membership form. Those who were present at the press conference included Adam Khan Jadoon, former president High Court Bar Association, Abbottabad bench and member PML-N provincial committee and Younis Khan Tanoli, president High Court Bar Abbottabad bench. Samiullah Khan Jadoon, provincial president MSF, Hammad Ali Shah, provincial president Labour Wing, Javed Khan Jadoon, president Hazara Youth wing, Sajjad Khan of Bagra, a candidate on PF-46, Saeed-ur-Rehman Advocate, president PML-N city, Qazi Ghanzanfar Advocate, Col Amanullah (retired) and other office-bearers.

Weekly HILL NEWS,
 The oldest living newspaper of Circle Bakote
 with largest circulation
Weekly Qomi Tashakhus

Weekly Hill Star Islamabad

 Sardar Mehtab Ahmed Khan (born 15 December 1952 in Malkot, Prposed sub devision Circle Bakote) Abbottabad District to a Hindko speaking family of Hazara) is a Pakistani politician and former Chief Minister of Khyber-Pakhtunkhwa from 1997 to 1999 and Federal Minister for Railways in the 2008 PM Yousaf Raza Gillani cabinet.[1] He is politically affiliated with PML-N, where he is the Senior Vice President. He has served as a senator from March 2003, but resigned on March 17, 2008, when he won the NA-17 Abbottabad-I National Assembly seat in the 2008 general election, held on February 18, 2008.
Chronology of life


  • *      1968….Mehtab Ahmed Khan passed matriculation from Government High School, Osea. Murree
  • *      1972….Graduated from the Sir Syed School in Rawalpindi.
  • *      1975….Passed LLB examination and joined Rawalpindi Bar Association
  • *      1976….He associated with his Sardar Muhammad Nawaz Khan's clothing business in Rawalpindi
  • *      1972….His uncle Sardar Sarfaraz Khan had contested local elections but never won
  • *      1985….Sardar Mehtab Khan elected for the first time \ as an independent candidate.
  • *      1997….22nd chief minister of the Khyber-Pakhtunkhwa on the 21 February
  • *      1999….He was arrested and accuced him that he was involved in the wheat scandal case 
  • *      2003….Became a senator till 2009
  • *      2008….Mehtab Ahmed Khan won NA-17 Abbottabad seat
  •       2013….He lost NA-17 first time and has won only provincial seat.Sardar Mehtab Ahmed Khan                Abbasi was the runner up with 65,000 votes while Pakistan Tehreek e       Insaf candidate Muhammad Azhar Khan Jadoon swept the NA-17 Abbottabad-I seat with 92,000 votes.
Sardar Mehtab historical letter to his PML (N) leadership in 2010 
PML NA 15 ticket that awarded to Murtaza jawaid Abbasi

Sardar Mehtab Ahmed Khan as seen by camera eye
Sardar Mehtab with his leadership
On 11th Feb, 2014, meeting with PM Nwaz Shareef
on a spot table, no flower, no other things





........ In 1998 as Chief Minister KPK at Peshawer


Sardar Mehtab in National Assembly
Sardar Mehtab welcomed to his contestant of Premiership Raja Perwaiz Ashraf in 2012
Sardar Mehtab meeting with Circle Bakote Mediamen


......With office bearers of Galyat, Circle Bakote Union of Journalists Mohammed Obaidullah Alvi, Kaleem Abbasi, Atif Khalid Sati and Ishteaq Abbasi at his residance in Islamabad (2011)

Journalists Ishteaq Abbasi, Tarik Nawaz Abbasi and Naweed Akram Abbasi meeting with Sardar Mehtab Ahmed Khan in Abbottabad

In Electronic & Print Media



Daily Mahasib Abbottabad, 5th July 2017

 وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کے بعد

اب سردار مہتاب احمد خان کا جعلی بیٹا بھی منظر عام پر آگیا

*************
تحریر: عبیداللہ علوی
*************

بنجابی کی ایک فلم بڑی مشہور ہوئی تھی، نام تھا ۔۔۔۔ منجھی کتھے ڈانواں۔۔۔۔ اس میں منور ظریف کو گھر والے گھر سے نکال دیتے ہیں اور وہ ایک چارپائی اٹھائے شہر شہر گھومتے ہوئے یہ صدا لگاتا ہے کہ ۔۔۔۔ مینوں پیو بنا لو یعنی مجھے ابا بنا لیں ۔۔۔۔ ہم اہلیان کوہسار سرکل بکوٹ اور کوہ مری کے لیڈروں کو تو ابھی کسی نے گھر سے نہیں نکالا نہ ہی ان کی تمام تر نا اہلیوں کے باوجود علاقے سے ہی ۔۔۔۔؟ چند روز پہلے مردان سے اسد عباسی ولد احسان عباسی نامی نوجوان کو کے پی کے پولیس نے گرفتار کیا تو اس نے تڑی لگاتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو دھمکایا کہ ۔۔۔۔ وہ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کا بیٹا ہے ۔۔۔۔ پولیس والوں نے اس کا شناختی کارڈ دیکھا تو اس کی ولدیت کے خانے میں احسان عباسی آف مری لکھا ہوا تھا، تا ہم پولیس نے اسے تمام تر دھمکیوں کے باوجود تھانے کی حوالات کا مہمان بنا دیا ۔
اب خدا کی قدرت دیکھئیے ۔۔۔۔ ہم صحافی لوگ علاقائی حوالے سے قائد سرکل بکوٹ عزت مآب سردار مہتاب احمد خان کی علاقئی پالیسیوں اور ان کے بطور صوبائی، وفاقی وزیر، وزیر اعلیٰ، گورنر اور اب مشیر وزیر اعظم برائے ایوی ایشن 32سالہ دور اقتدار (ممبر ضلع کونسل یو سی بیروٹ جناب خالد عباسی اور سابق ناظم بیروٹ آفاق عباسی کہتے ہیں کہ ان کا دور اقتدار صرف 8سالہ ہے، باقی عرصہ مشرف کھا گیا ہے) میں سرکل بکوٹ کو بے مثال و بے نظیر موٹر ویز، چین سے زیادہ کارخانوں، ہزار ہزار بیڈ کے ہر ہرض مرض کے شفاخانوں، ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کے علاوہ عالمی معیار کے کالجوں، آئی ٹی، انجینیئربگ، میڈیکل اور دیگر ٹیکنیکل ادروں اور یونیورسٹیوں (جہاں امریکی ، جاپانی اور یورپی سٹوڈنٹس بھی حصول تعلیم کیلئے آتے ہیں) اور سوٹزر لینڈ کو بھی مات دینے اور امریکی نیاگرا واٹر فال کو شرمندہ کرنے والی سیاحت کے نیلم پوائنٹ کنیر پل اور مولیا آبشار سمیت ایوبیہ اور اہم مقامات پر تمام تر سہولیات سے اراستہ سیاحتی مراکز بنانے کے باوجود انہیں خوامخواہ اپنی نکتہ چینی کا ہدف بنا کر ان سے سراسر زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ در اصل ہم نا شکرے لوگ ہیں ۔۔۔۔ حالانکہ علامہ اقبالؒ ہمارے اسی قائد سرکل بکوٹ کے بارے میں ایک صدی قبل فرما چکے ہیں کہ ۔۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ ور پیدا
بلکہ معروف لوک گلوکار ۔۔۔۔ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی ۔۔۔۔ نے تو ساری حدیں پار کر کے سرکل بکوٹ کے اس دیدہ ور کے بارے میں یہاں تک گا دیا ہے کہ ۔۔۔۔
100سالاں وچ ہک چمدا اے ۔۔۔۔ تیرے ورگا ڈھولا
کیونکہ اس کے بعد ایسے ڈھولے کی پیدائش پر قدرت پابندی لگا دیتی ہے جیسے ۔۔۔۔ گزشتہ32 سال سے سرکل بکوٹ میں لگی ہوئی ہے ۔
ہمارے اس واجب الاحترام لیڈر اور بے بدل قائد جناب سردار مہتاب احمد خان کو بھی دلبوڑی، اوگی کے ایک عاقبت نا اندیش نوجوان ۔۔۔۔ بلال ولد شفیق ۔۔۔۔ نے اپنے والد کی جگہ دے دی ہے ۔۔۔۔۔ آج بدھ 5 جولائی کے ایبٹ آباد کے اخبارات نے بلال ولد شفیق کے ہمارے لیڈر سردار مہتاب احمد خان کو اپنا ۔۔۔ اباجان ۔۔۔ بنانے کی خبر کو شہہ سرخی کے طور پر شائع کیا ہے، اس نوجوان نے اوگی میں دو افراد کو گاڑی تلے دے کر مار دیا اور کے پی کے کی سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی کو موقع پر چھوڑ کر فرار ہو گیا، گاڑی کی تلاشی پر مزید کئی ایک انکشافات ہوئے اور یہ بھی پتا چلا کہ مانسہرہ اور مردان پولیس کے پاس بھی اس جعلی شفیق ولد سردار مہتاب احمد خان پر مختلف جرائم کی ایف آئی آر درج ہیں ۔۔۔۔ خیر اس نوجوان کے دیگر شدمندہ کرنے والے تاریک کارناموں سے ہمارا کیا لینا دینا ۔۔۔ مگر ۔۔۔ مردان کے اسد عباسی اور اب اوگی کے بلال کی اس ناکام کوشش سے دہشتگردی کی اس ایک نئی قسم نے جنم لیا ہے جس کی تعزیرات پاکستان میں کوئی دفعہ بھی موجود نہیں ۔۔۔۔ سردار مہتاب احمد خان اور شاہد خاقان عباسی کوہسار کے وی وی آئی پی اور کوہ موشپوری سے بھی کافی بڑے لوگ ہیں، انہیں ایک کیا دس دس نوجوان بھی ۔۔۔۔ اپنے برخوردار ابا جی ۔۔۔۔ بنا لیں تو انہیں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ۔۔۔۔ مگر مجھے خوف ہے کہ ۔۔۔۔ اگر کسی نے مجھے یا آپ کو ۔۔۔۔ مرتبہ پدری ۔۔۔۔ پر فائز کر دیا تو۔۔۔۔؟ بھئی، عمر جوں جوں ڈھلتی جا رہی ہے گھر کی اکلوتی ملکہ تو اتنی شکی مزاج ہے کہ ۔۔۔۔ رات دفتر سے دیر سویر ہو جاوے تو ۔۔۔۔ وہ سوکن کا طعنہ منہ پر دے مارتی ہے اور اپنی بھر پور صفائی کے موقف کے باوجود کبھی رات کا کھانا نصیب ہوتا ہے اور کبھی نہیں، اور ٹھنڈی و آج کل کی مچھروں سے بھرپور بھگی رات بھی گلیوں کے مٹر گشت میں گزارنی پڑتی ہے ۔۔۔۔ اگر اس طرح کی کوئی نیوز کسی پنڈی اسلام آباد، مری یا ہزارہ کے کسی اخبار میں میرے یا آپ کے بارے میں چھپ گئی تو ہمارے گھر کی ملکہ تو اپنی جگہ ۔۔۔۔ بچے بھی گھر سے جلا وطن کر دیں گے اور ہمیں بے گھر کرنے والا ہمارا جعلی بیٹا یا بیٹی بھی ہمیں قبولنے سے انکار کر دے گا ..... اس طرح ہم گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے ۔۔۔۔ کیا سمجھے ۔۔۔؟

Interview with Daily Ummat Karachi

Daily AAj Abbottabad/Peshawar, 13th April, 2013

Saradr Mehtab Political Activities


Sardar Mehtab is filing nomination papers at Election Commisioner office in Abbottabad

Sardar Mehtab in Circle Bakote
.........In 1985

...... In Birote, May 2013

......... In Birote

....... Addresing a public meeting in Birote

..... In Molia, UC Bakote

............Reception by his lovers

..............In Birote Khurd

....................In SEDA School System Birote, 2010

For the year of 2013-14
Sardar Mahtab Ahmed Khan with........
......... At Malkote

........ Ishfaq Serwer

........ with his son Sardar Shamoon (Ex MPA)

In center........ House of Sardar Mehtab Ahmed Khan in Malkote 

Sardar Mahtab Ahmed Khan.....As seen by his opponents
Every personality of any department who gained popularity among his lovers, often objectioned by his opponents. Sardar Mahtab is a LEADER OF NATIONAL LEVAL and first hilly man who won CM ship of  Ex NWFP (KPK) now and contasted Premiership as a result his first political defeat in NA-17 in 2013 Election gave sences of joy to his opponents. Some intelegent fellows from his constituency produced many funny caricatures and photoes about him. These feelings are a new trend of new computer age. 


The assets and tax returns

 declared

 by National Assembly candidates from NA-17 

By Sardar Abrar Rashid Saturday, April 27, 2013 

The assets and tax returns declared by National Assembly candidates from NA-17 (Abbottabad) Sardar Mahtab Ahmad Khan and Dr Azhar Jadoon in their nomination papers do not match their wealth and in some instances these details are laughable. 
The nomination papers and details of assets are available with The News. Dr Azhar Jadoon, candidate of Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI), declared in his nomination papers that he or his spouse and dependents owned the Hira General Hospital, Link Road Abbottabad and Professional Education and Promotion Society only. It said he opened an account with a private bank specifically for the purpose of election expenses and deposited Rs1.5 million in it. 
In column 12 of the nomination paper Dr Azhar Jadoon stated that he received Rs104,000 as salary from a private medical college in tax year 2010 against which he paid Rs24,000 as income tax. He added that he drew Rs129,000 each as salary in 2011 and 2012 and paid Rs36,000 as income tax each year. 
Dr Azhar Jadoon showed no landholding or agricultural income during above stated three years i.e. 2010-2012. He stated on oath that he paid Rs 27,000 for the party ticket. There is increase of Rs414,000 shown in his income against the previous corresponding year ending on June 30, 2012. 
According to the nomination papers, Dr Azhar Jadoon owned a 27 marla house valued at Rs15000,000, land measuring 53 kanal and three marla worth Rs200,000, another land of five kanal and four marla worth Rs 500,000, 18 marla land worth Rs1.2 million, one kanal land priced at Rs2.1 million, and another piece of one kanal land worth Rs400,000. Besides, the value of land owned by him measuring 700 kanal was stated as ‘not known’. 
Dr Azhar also stated that he owned a Land Cruiser model 1987/1988 worth Rs800,000 and Liana 2006 model car priced Rs650,000. He also possessed 20 tola gold. 
The nomination papers of Sardar Mahtab Ahmad Khan, candidate of PML-N from NA-17 also depict an interesting picture. The former chief minister (March 1997 to October 1999) declared that he, his spouse or dependents did not own any company except Malkot Poultry Breeders, Sihala Islamabad. He reported that he opened a bank account specifically for election expenditure with Rs 100,000 deposit. Through his shares and salary from Malkot Poultry Breeders, he said he earned Rs. 692,244 in 2010, Rs 884,736 in 2011, Rs 930,564 in 2012 and paid Rs36,271, Rs58,727 and Rs 65,113, respectively, in these three years as income tax. 
Sardar Mahtab said he paid agricultural tax on his Boi Rankot agricultural land amounting to Rs100,000 in 2010, Rs125,100 in 2011 and Rs 165,000 in 2012. 
Sardar Mahtab declared his total assets Rs16, 214,263 at the end of the previous fiscal year with an increase of Rs596,737 against the assets of Rs15, 617,526 during the corresponding year that ended on June 30, 2011. 
He said he owned plot pf land worth Rs1,335,000 in Jammu and Kashmir Housing Society Islamabad. He also owned a house and forested land in Abbottabad valued at Rs4,770,000 and agricultural land at Boi Rankot worth Rs1,655,977. He also held investment of Rs1,021,398 in Malkot Poultry Breeders, Sihala, Islamabad. According to the declaration column of assets and liabilities, Sardar Mahtab Khan owned a Toyota Prado (2006 model) priced Rs1,300,000 and ornaments worth Rs500,000. 
Sardar Mahtab reported having Rs5, 179,388 cash deposited in a private bank in Islamabad. He had personal valuables and furniture worth Rs750,000 and arms valued at Rs5,500. Many political observers and the common people don’t agree with the assets declaration of almost all the candidates, including Sardar Mahtab and Dr Azhar Jadoon. According to the law, anyone having any proof can challenge these assets at the Election Commission of Pakistan even after the elections and get the successful candidates who have under oath made wrong declaration of assets disqualified. <Read More>

References
(To be continued)


(To be cntinued)