Tuesday, February 14, 2017



 روزنامہ محاسب ایبٹ آباد، یکم جولائی، 2018

ویلے نی اپنے حلقے نیں لوکاں ای 35 سالاں تک
 تعلیم، صحت تے مواصلات وچ 
پسماندہ رکھنے والیاں نیں عبرتناک انجام نی گل
**********************************
خدایا، کون ہے ثانی،  ترا سارے زمانے میں
تو ہی تو واحد بے مثل ہے ، اس کارخانے میں
تو شاہوں کو گدا کردے، گدا کو بادشاہ کر دے
اشارہ تیرا کافی ہے ۔ گھٹانے اور بڑھانے میں

--------------------------------------
اے اہل بصیرت، تم ان واقعات سے عبرت حاصل کرو ۔۔۔۔۔ القرآن
---------------------------------------
ابن الوقت کوئی بھی ہو، جب اپنے محسنوں سے کئے گئے وعدوں سے ہٹتا ہے، قدرت اس کا نام و نشاں مٹانے کیلئے خود اسباب پیدا کرتی ہے ۔
---------------------------------------

 انیس سو تراسی میں سرکل لورہ سرکل بکوٹ سے الگ ہو گیا تھا ۔۔۔ اسے دوبارہ کس نے گڑھی حبیب اللہ سے اسلام آباد کی مارگلہ ہلز تک جوڑا؟
*******************

تحریر
محمد عبیداللہ علوی بیروٹوی
*******************
      روزنامہ محاسب ایبٹ آباد، یکم جولائی دوہزار اٹھارہ 

جو 30 سال تک فاتح سرکل بکوٹ تھا ۔۔۔۔۔۔ جو نااہل لیگ کے گاڈ فادرز کیلئے بھروسے کا ایک لازمی وفادار ساتھی رہا ۔۔۔۔۔۔ جو نااہل لیگ کے ہر پالیسی معاملہ پر ایک اتھارٹی جانا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ جو موجودہ الیکشن میں نااہل لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا قائد تھا ۔۔۔۔۔۔ جو لاتعداد صوبائی و وفاقی وزارتوں اور سرکاری کارپوریشنوں کا سربراہ رہا ۔۔۔۔۔۔ جسے خدائے ذوالجلال نے وزیر اعلیٰ اور گورنر کے پی کے کے مناصب جلیلہ بھی عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔ جو راقم السطور سمیت سرکل بکوٹ کے صحافیوں سے ہر ملاقات میں ببانگ دہل کہا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں، نون لیگ کو میری ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ مگر کیسے اور کیوں ۔۔۔۔۔۔؟ قدرت نے اسے اسے مکھن سے بال کی طرح اٹھا کر ملکوٹ اور اسلام آباد کے ایف سیون سیکٹر کے ایک شیشوں سے ڈھانپے ہوئے بنگلوں میں کس منجنیق سے پھینک دیا ۔۔۔۔۔۔۔؟ جہاں اس کیلئے تمام سیاسی راستوں پر بیریئر لگ گئے ہیں ۔۔۔۔۔ جہاں اب گھر کے کسی کونے میں تاریخ کا ایک پرانا اور فرسودہ باب بن کر زندگی کے باقی دن پورے کرنے کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کبریائی صرف اور صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی سزاوار ہے ۔
خدایا، کون ہے ثانی ۔۔۔۔ ترا سارے زمانے میں
تو ہی تو واحد بے مثل ہے، اس کارخانے میں
تو شاہوں کو گدا کردے، گدا کو بادشاہ کر دے
اشارہ تیرا کافی ہے ۔ گھٹانے اور بڑھانے میں
اے اہل بصیرت، تم ان واقعات سے عبرت حاصل کرو ۔۔۔۔۔ القرآن
------------------------
اتوار1/جولائی
2018

End of the road for Metab Khan in Abbottabad?

By
Published in The Express Tribune, June 30th, 2018

ABBOTTABAD: A total of 31 candidates remain in the running for the two national assembly seats in Abbottabad (NA-15, NA-16) after seven candidates, including Sardar Mehtab Khan, withdrew their candidature from the constituency on Friday, the last day to do so.

After the withdrawal of the papers, the main electoral battle in the district appears to be between the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) and the Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N), as was in the 2013 general elections when one seat of Abbottabad was won the by PTI while the other was won by the PML-N. 




Amongst the notables who withdrew their candidature from the two national assembly seats in the district were Sardar Sheryar Khan, the eldest son of former Khyber-Pakhtunkhwa (K-P) governor Sardar Mehtab Khan who had filed his papers from NA-16. From NA-15, Sardar Mehtab withdrew his papers despite the fact he was considered to be one of the main contenders for the seat. He used to contest from Abbottabad city in the past, which used to fall in the erstwhile NA-17. Mehtab claimed that since eight major union councils of his constituency now fall in NA-15, he had opted to contest from that constituency. He was hopeful of securing a party ticket too.

However, the PML-N instead awarded the ticket for the constituency to former NA speaker Sardar Murtaza Javed Abbasi who staked a claim to the area since his father used to contest and win elections from it in the past. Sardar Mehtab, though, now looks to be without a seat for the upcoming general elections — for the first time since 1985. NA-53 Islamabad, the other seat he had filed his papers for, will see outgoing prime minister Shahid Khaqan Abbasi take on PTI chief Imran Khan. Mehtab used to be a major contender for the PML-N, enjoying close ties with party supremo Nawaz Sharif. However, despite enjoying the post of adviser to the premier on aviation for a significant chunk of the PML-N’s five-year tenure, he seems to have failed in wooing the new string pullers of the party, the former premier’s son-in-law Captain Safdar. The latter has, instead, struck up a partnership with Murtaza PML-N’s provincial chief Amir Muqam. Some observers say this was the best scenario for Shehryar since he is a relative unknown compared to his brother and former provincial lawmaker Sardar Shamoon Mehtab. 


PTI under a cloud


While the PML-N sorts its crisis, the PTI is in the middle of its own crisis. In the 2013 general elections, Dr Azhar Khan Jadoon had won a seat for the party in the area. This time around, former deputy speaker of the national assembly Sardar Muhammad Yaqoob was vying for a ticket from the seat. However, the party instead handed the ticket to Ali Asghar Khan, the son of former Air Marshal Asghar Khan. Unlike Yaqoob, who claims historical family ties to the area, Ali is not considered to be a ‘local’. Yaqoob, thus, is now running as an independent in NA-15. He will face off against Murtaza of PML-N and Ali from the PTI. Other contenders including SM Iqbal of the Muttahida Majlis-e-Amal (MMA) and former PTI lawmaker Ayaz Khan Jadoon. In NA-16, Ali Khan Jadoon from the PTI will take on Mohabat Awan of the PML-N, and independents Ayaz, Shoukat Tanoli and Saeed Mughal.



ہزارہ کے آسمان سیاست کے


 مہتاب 
 کو گرہن کیسے لگ گیا ؟
--------------------------------
نون لیگ کا طاقتور ترین سردار مہتاب ’’سافٹ کو‘‘کا شکار ہو کر فی الوقت اپنے خاندان سمیت سیاسی منظر نامے کے افق پر 38 برس بعد غروب ہونے لگا ۔۔۔۔

--------------------------------
مہتابی آب و تاب کے عہد میں ۔۔۔۔۔۔ ہزارہ کی نونی پارٹی ایک طرح سے جمود کا شکار ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔ پوری ایک نسل انہی چہروں کو دیکھ دیکھ کر جوان ہوئی اور ایک نسل گزر گئی ۔
--------------------------------
اپنے ٹکٹ سے محروم ہوکر ۔۔۔۔ مجبوراً سردار مہتاب کو پی کے 36 سے امیدوار اپنے بھائی سردار فرید اور این اے 16 سے امیدوار اپنے بڑے جواں سال صاحبزادے سردار شہریار خان کا ٹکٹ بھی نااہل لیگ کے بوتھے پر مارنا پڑا ۔
---------------------------------
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ۔۔۔۔۔ ہرکمال کو آخر زوال ہے ۔۔۔۔۔ اور جو لیڈر قوم کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے تو تگ دو کرتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ باعزت طور پر اپنے گھر واپسی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اس سے چھٹکارا پانے کی سوچ جنم لے ہی لیتی ہے ۔
***************************
تجزیاتی رپورٹ بشکریہ 

 محمد صفدر تنولی عباسی
سینئر جرنلسٹ و سابق بیورو چیف بی بی سی ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔ سابق ایڈیٹر روزنامہ ہزارہ ٹائمز ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔ فون نمبر  
  03325585844
03222376216
***************************


 Daily Aaj Abbottabad, 28th June, 2018

ہزارہ میں مسلم لیگ ن کی پہچان تصور کئے جانے والے سردار مہتاب احمد ’’سافٹ کو‘‘کا شکار ہو کر فی الوقت اپنے خاندان سمیت سیاسی منظر نامے سے اوجھل ہونے لگے ،ڈیڑھ بام پر چمکتے مہتاب کو گرہن کیسے لگا ؟اس سارے منظر نامے کو سمجھنے کیلئے قومی منظر نامے کو سمجھنا ضروری ہے ۔

جہاں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قراردئیے جانے اور ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کوپارٹی قیادت سونپے جانے کے بعد نئی صف بندیاں شروع کردی گئیں۔صوبہ خیبرپختونخواہ میں امیر مقام کو پارٹی کا صدر اور مرتضیٰ جاوید عباسی کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا جنہیں مسلم لیگی حلقے کیپٹن صفدرگروپ تصور کیا جاتا ہے ۔یہیں سے صوبہ خیبرپختونخواہ میں اصل تبدیلی کا آغاز ہوا اور پرانے چہرو ں کے بجائے نئے چہروں کو اگلی صفوں میں لانے کیلئے تیاریاں شروع کردی گئیں ۔مسلم لیگ ن ہزارہ میں پیر صابر شاہ ،سردار مہتاب احمد ،سردار محمد یوسف ایسے لوگ تھے جو گذشتہ کئی عشروں سے نہ صرف پارٹی کے ساتھ وابستہ تھے بلکہ انہوں نے دور تک اپنی جڑیں بھی پھیلا رکھی تھیں

اور ایک عام کارکن کے نزدیک پوری پارٹی کا وہی مرکز و محور تھا ،اس طرح دیکھا جائے تو پارٹی ایک طرح سے جمود کا شکار ہوچکی تھی کیوں کہ پوری ایک نسل انہی چہروں کو دیکھ دیکھ کر جوان ہوئی اور ایک نسل گزر گئی ،جبکہ تحریک انصاف جیسی چمک دمک کی حامل پارٹی کی موجودگی میں نئی نسل کو پارٹی کی جانب راغب کرنا ناممکن نظر آرہا تھا ۔شاید اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ن لیگ کی نئی اعلیٰ قیادت نے سب سے پہلے پارٹی کو اوپر سے نیچے کی طرف اصلاح کرنے کی کوشش کی ۔ پہلے مرحلے میں پیر صابر شاہ کو سینیٹرشپ کے ذریعے علاقائی سیاست سے باہر کیا گیا ،جبکہ دوسرے مرحلے پر عین انتخابات کے وقت سردار مہتاب احمد کیلئے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ پہلے وہ این اے 15پر اپنے ٹکٹ سے محروم ہوئے ،پھر مجبوراً انہیں پی کے 36سے امیدوار اپنے بھائی سردار فرید او راور این اے 16پراپنے بیٹے سردار شہریار کا ٹکٹ بھی واپس کرنے کا اعلان کرنا پڑا ۔اس وقت دیکھا جائے تو مانسہرہ میں سردار محمد یوسف کے ساتھ میں ڈنڈا ڈولی کا سلسلہ جاری ہے

اور درپردہ نئے امیدواروں کے ذریعے انہیں سائیڈ لائن کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔تاہم بہتر متبادل ملنے تک اس سیٹ کے ساتھ شاید زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ ہواور ان کے حوالے سے فیصلہ کرنے کیلئے کسی مناسب وقت کا انتظار کیا جائے ۔مسلم لیگ ن خیبرپختونخواہ کی نئی قیادت کے فیصلوں کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔تاہم فوری طور پر کارکنا ن کے موڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وقتی شور شرابے کے بعد قیادت کی رضا میں راضی ہوجائیں گے ۔اور جس انداز میں الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں دھول اڑائی جارہی ہے یہ غبار جلد چھٹ جائے گا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ تمام لیگی قائدین کی پارٹی کیلئے درجہ بدرجہ خدمات رہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اس کا مالی و سیاسی ہر لحاظ سے صلہ بھی وصول کیا ہے

ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ہرکمال کو آخر زوال ہے اور جو لیڈر قوم کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے تو تگ دو کرتا ہے لیکن باعزت طور پر اپنے گھر واپسی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ،کہیں نہ کہیں انہیں پیرپاتسمہ تصور کرتے ہوئے کسی موڑ پر ان سے چھٹکارا پانے کی سوچ جنم لیتی ہے ۔سردار مہتاب احمد اور ان کے خاندان کے سیاسی عمل سے باہر ہونے سے پیدا ہونے والا خلا کیسے پر کیا جائے گااور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟اس کیلئے قوم کو ایک ماہ سے بھی کم انتظار کرنا پڑے گا ۔

سردار مہتاب احمد خان عباسی وزیراعظم کے مشیر ہوا بازی اور چیئرمین پی آئی اے مقرر، منگل صبح نو بجے سرکاری نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا
-------------
ان کی سرکاری عہدہ جوائن نہ کرنے کی قانونی مدت اگست تک باقی تھی تاہم وزیر اعظم نے اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان کی تقرری ممکن بنائی ہے
--------------
سردار مہتاب خان کی اس کے لئے قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، مشرف نے ایک ہزار ایک ترغیبات کے ذریعے اٹک جیل میں سردار مہتاب کے ضمیر کی منڈی لگانے کی کوشش کی مگرسرکل بکوٹ کے اس باضمیر شخص نے یہ تمام ترغیبات اور لالچ اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کرجدہ میں بیٹھے میاں برادران کے ساتھ زندگی کی آخری سانس تک وفا نبھانے کا عہد کیا
--------------
سردار مہتاب نے یہ ثابت کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔ حالات کچھ بھی ہوں، سرکل بکوٹ میں اپنے وطن اور قوم سے غداری کرکے منٹگمری میں مربعے حاصل کرنے والے میر جعفر و صادق  اب پیدا نہیں ہو سکتے

--------------
 راولپنڈی بار میں سردار مہتاب مقدمات لینے اور جیتنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ زیادہ سے زیادہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہوتا مگر وہ کے پی کے کا وزیر اعلیٰ اور گورنر اور اب پی آئی کا چیئرمین ہر گز نہ کہلاتا
*******************
تحقیق و تحریر
 محمد عبیداللہ علوی 
*******************
 فرزند سرکل بکوٹ ۔۔۔۔۔ سابق وزیر اعلیٰ اور گورنر گورنر خیبر پختون خوا سردار مہتاب خان عباسی وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے ہوابازی اور چیئرمین پی آئی اے مقرر کردیئے گئے ہیں اور ان کی تقرری کا 14 فروری 2017 کی صبح نو بجےنوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔قومی سطح کے سیاستدان، وکیل اور صحافی نان سٹاپ اور دھڑا دھڑاپیدا کرنے والی یو سی پلک ملکوٹ سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب عباسی  پی آئی اے کے چئیرمین بھی ہوں گے اور انہیں وفاقی وزیر کے برابر درجہ حاصل ہوگا۔ اس سے قبل یہ عہدہ وفاقی وزیرترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے پاس تھا جنہیں  شجاعت عظیم کے مستعفیٰ ہونے کے بعد اس عہدے کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔مہتاب خان عباسی نے گزشتہ برس پارلیمانی سیاست میں دوبارہ قدم رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو بحیثیت گورنر استعفیٰ پیش کیا تھا جسے انہوں نے منظورکرلیا تھا۔سرکل بکوٹ سے پی آئی اے چیئرمین بننے والے سردار مہتاب پہلے شخص ہیں ۔۔۔۔۔ابھی ان کی سرکاری عہدہ جوائن نہ کرنے کی قانونی مدت اگست تک باقی تھی تاہم وزیر اعظم نے اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان کی تقرری ممکن بنائی ہے۔۔۔۔۔۔ اسے اہلیان سرکل بکوٹ کے نون لیگیوں اور سرداران ملکوٹ کیلئے ۔۔۔۔ یوم حیا ۔۔۔۔ کا تحفہ سمجھنا چائیے۔
مسلم لیگ نون ۔۔۔۔ بلا مبالغہ وفا شعاروں اور یاروں کی یار ۔۔۔۔ حکمران سیاسی جماعت  ۔۔۔۔۔ ہے، سردار مہتاب خان کی اس کے لئے قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، مشرف نے ایک ہزار ایک ترغیبات کے ذریعے اٹک جیل میں سردار مہتاب کے ضمیر کی منڈی لگانے کی کوشش کی مگر ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے اس باضمیر شخص نے یہ تمام ترغیبات اور لالچ اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کرجدہ میں بیٹھے میاں برادران کے ساتھ ۔۔۔۔ زندگی کی آخری سانس تک وفا نبھانے کا عہد کیا ۔۔۔۔ یہ شخص اپنے شجر سے پیوستہ رہا ۔۔۔۔ اسے گورنر شپ کی ڈرائیوری بھی پیش کی گئی اور اب ۔۔۔۔ اسے  وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے ہوابازی اور چیئرمین پی آئی اے ۔۔۔۔ بھی مقرر کیا گیا ہے، یہ اس کی وفائوں کے سامنے بہت حقیر ہے مگر ۔۔۔۔ ؟ سردار مہتاب نے یہ ثابت کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔ حالات کچھ بھی ہوں، سرکل بکوٹ میں اپنے وطن اور قوم سے غداری کرکے منٹگمری میں مربع حاصل کرنے والے میر جعفر و صادق پیدا نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔۔ مگر دیکھ لیجئے، عزت و وقار دینے والے کی عطا ۔۔۔۔  کہ مہتابی وفا کا دوسرا نام ۔۔۔۔۔ کے پی کی گورنری اور وزارت اعلیٰ کے علاوہ پی آئی کی چیئرمینی اور ہوابازی میں وزیر اعظم کی مشاورت ۔۔۔۔ بھی ہے، کون ہے سرکل بکوٹ میں وفائوں کی یہ تاریخ  دوبارہ رقم کرنے والا اور ملک کے ان اعزازات کو 2117  تک حاصل کرنے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اگر کوئی بے وفا، ابن الوقت اور چوری کھانے والا مجنوں خواب میں بھی یہ عزت و شرف حاصل کر سکتا ہے تو سامنے آئے ۔۔۔۔۔؟
کسی علاقے میں جاری سیاسی و سماجی رحجانات اس علاقے کے عام لوگوں بالخصوص وہاں کی لیڈر شپ کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں، ملک بھر میں دیکھ لیجئے کہ جہاں جہاں تعلیمی ادارے، بلدیاتی نمائندے اور دیگر متعلقہ سٹیک ہولڈرز فعال ہونگے وہاں وہاں سوچ میں بھی وسعت، من و تو کے تعصبات سے پاکی اور مقاصد میں بلندی نظر آئیگی، نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوہسار بالخصوص سرکل بکوٹ میں ایسا نہیں ہے بلکہ اگر قدیم نظام سماج کے ساتھ اس کا تقابل کیا جائے تو بھی جواب نفی میں ہو گا، اس میں کچھ اسباب داخلی اور کچھ وجوہات کا تعلق خارجی معاملات سے ہے،دنیا کا کوئی شخص ہو اس کا کوئی نہ کوئی وطن، قبیلہ، مذہب اور سماج ضرور ہوتا ہے، تنہا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات مبارکہ ہے اس طرح سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر اپنے کردار کا تعین کرتا ہے، لیڈر بھی عام لوگوں سے سامنے آتے ہیں، ان میں اور عام آدمی میں فرق صرف سوچ کا ہوتا ہے اور اپنی اپنی قابلیت اور اہلیت کے حوالے سے وہ لیڈر اپنے ان لوگوں کا کی تقدیر لکھتا اور سنوارتا ہے جس سے ان میں اعتماد اور اعتبار ایمان و ایقان کی حد تک پختہ ہو کر اس کی سیاسی قوت بن جاتا ہیں، کیا سرکل بکوٹ میں ایسا ہے… ؟ ماضی کو چھوڑئیے، عصر حاضر کی زندہ تاریخ (Living History) پر ہی ایک نظر ڈالئے تو معلوم ہو گا کہ… نیلسن منڈیلا کسی ترقی یافتہ قوم کا فرد نہیں تھا، اس نے اپنے ہموطنوں کو نسلی امتیاز سے آزاد کرانے کے نصب العین (Noble cause) کے حصول کیلئے اپنی جوانی کو زندان کے حوالے کیا اور پھر منزل عہد پیری (Old age) میں بھی پا لیا، آج وہ جنوبی افریقہ کا باپو (Father of the nation) ہے، محمد یونس ایک عام بنگالی ماہر اقتصادیات ہے، اس نے قوم کو ایک ایسا فارمولا دیا کہ 30 سال کے بد حال بنگلہ دیش کا ہر فرد آج 7,500 ڈالر سالانہ کما رہا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے سرمایہ کار ڈالروں سے بھرے بریف کیسوں کے ساتھ این او سی کیلئے لائنوں میں کھڑے ہیں، ابوالکلام ایک نیم مسلم مگر سیکولر بھارتی سائنس دان تھا، اس نے اپنی دن رات کی محنت سے ملک کو 1974ء میں ایٹمی پاور بنا دیا، ایک پاکستانی محبوب الحق کے فارمولوں اور ویژن نے جنوبی کوریا کو اقتصادی سپر پاور بنایا، مگر وہ پاکستانی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنے ملک میں ناکام رہا، ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے وطن عزیز کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنایا ، جبکہ بھارتی سائنس دان ابولکلام کو اس کی قوم نے صدر مملکت کے منصب جلیلہ پر فائز کر کے اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
کوہسار بالخصوص سرکل بکوٹ کی سیاسی تاریخ آٹھ دہاییوں پر مشتمل ہے اور سوائے 1951-56(حضرت پیر حتیق اللہ بکوٹیؒ)، 1861-68(سردار عنائت الرحمٰن عباسی)، 1977ء کے 100 ایام (شمالی سرکل بکوٹ کی تاریخ میں مختصر ترین عہد کی پیپلز پارٹی کی منتخب قیادت سردار گلزار عباسی) اور 1985 سے تا حال (سردار مہتاب احمد خان کا محور سرکل بکوٹ رہا ہے اور انہیں تیس سالوں کی حکمرانی کا طویل ترین دور بھی ملا ہے اور وہ بھی نیلسن منڈیلا کی طرح چوبیس ماہ کیلئے اٹک قلعہ میں پابند سلاسل رہے ہیں، وہ شخص جو راولپنڈی بار کا ممبر ہوتے ہوئے تین سال تک ایک مقدمہ حاصل نہ کر سکا تھا آج اپنی قابلیت، صلاحیت ، اپنے میر کارواں سے وفا اور نصب العین سے سچائی اور مزید یہ کہ اپنے مقدر (Fate) کی وجہ سے سرکل بکوٹ جیسے پسماندہ علاقے سے خیبر پختونخوا صوبے کے سب سے بڑے منصب گورنری، وزارت اعلیٰ کے بعد اب شہری ہوا بازی میں وزیر اعظم کی مشاورت کیلئے پی آئی اے کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے، ماہرین اقبالیات کہتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے انڈین سول سروس کا امتحان دیا اور اس میں کامیاب بھی ہوا مگر اسے میڈیکلی ان فٹ قرار دیکر مسترد کردیا گیا، اگر علامہ اقبالؒ بیورو کریٹ سلیکٹ ہو جاتے تو ان کے اندر چھپا فلسفی اور مشرق کی شاعری ہلاک ہو جاتی اور وہ شاعر مشرق کہلاتا نہ مفکر پاکستان، اسی طرح اگر راولپنڈی بار میں سردار مہتاب مقدمات لینے اور جیتنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ زیادہ سے زیادہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہوتا مگر وہ کے پی کے کا وزیر اعلیٰ اور گورنر اور پی آئی کا چیئرمین ہر گز نہ کہلاتا، اہلیان سرکل بکوٹ نے سرداران بوئی (سردار حسن علی خان تا سردار عبدالقیوم خان) کا اقتدار بھی دیکھا جس میں جبر اور ظلم زیادہ اور عوامی فلاح و بہبود کم تھی، اس کا متبادل سردار حسن علی خان کے ہی ہم برادری یعنی عثمانی حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ کی صورت میں انہیں ملا، موجودہ سوارگلی بوئی روڈ انہی کا تصور تھا مگر اس عہد کی مرکزی عاقبت نا اندیش قیادت کی وجہ سے ہفتے اور مہینے بعد حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور یہ کام پائیہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا، ایوبی دور حکومت میں سردار عنایت الرحمان عباسی کا جارحانہ طرز سیاست (Agressive nature of politics) نے حکومت مغربی پاکستان کو مقامی فعال قیادت اور شاندار لیڈر شپ کی بدولت اپر دیول کوہالہ روڈ، کوہالہ بکوٹ روڈ، گھوڑا گلی لورہ روڈ اور بیشمار نئے سکول، بنیادی مراکز صحت وغیرہ کی سہولیات حاصل ہوئیں، باغات لگے اور لوگوں کو نقد آور پھلوں کی صورت میں آمدنی کا ایک نیا ریسورس بھی ملا، 1985ء سے تا حال سردار مہتاب احمد خان سرکل بکوٹ کے نویکلے اور بلا شریک حکمران (Solo ruler) ہیں،انہوں نے اپنی 30 سالہ عہد حکمرانی میں سرکل بکوٹ کو کیا کچھ ڈیلیور کیا اس کا ایک اجمالی خاکہ کچھ اس طرح سے ہے۔
٭… سردار مہتاب احمد خان کا تعلق ایک متوسط کاروباری گھرانہ سے ہے، وہ سرکل بکوٹ کے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے، انہوں نے بر سر اقتدار آ کر سب سے پہلے ڈسٹرکٹ بیوروکریسی کو نکیل ڈالی اور انہیں اپنے سرکل بکوٹ کے عوام کی خدمت کا ان کی دہلیز (Doorstep) پر پابند کیا مگر ساتھ ان کی سیاسی اقتدار کی راہداریوں کے سفر کے آغاز ہی میں ہی ایک ہٹو بچو گروپ بھی وجود میں آگیا جو سردار مہتاب کے حوالے سے سرکل بکوٹ کے عوام کے نام پر آٹا، چینی، سیمنٹ، اسلحہ لائسنس اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے پرمٹ منظور کرواتا رہا اور یہ سب چیزیں طورخم کے اس پار جاتی رہیں ۔
٭… سردار مہتاب کے دور میں مری ایبٹ آباد روڈ کی عالمی معیار کے مطابق تعمیر ہوئی، اہلیان سرکل بکوٹ کا سوار گلی بوئی روڈ کا دیرینہ مطالبہ کا بھی نا مکمل تعبیر و تعمیر کا آغاز ہوا، سرکل بکوٹ بھر میں کافی لنک روڈز بھی تعمیر ہوئیں اور ان کی وجہ سے نہ صرف معیار زندگی بہتر ہوا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے، کافی تعداد میں واٹر سپلائی سکیمیں بھی شروع کی گئیں جن میں سے ستر فیصد مکمل بھی ہوئیں،بلکہ سردار مہتاب نے اپنی آبائی یونین کونسل پلک ملکوٹ میں عام لوگوں کو گھروں میں بیت الخلاء بھی بنانے کیلئے فنڈز بھی دئے، دوسری طرف اسی عرصہ میں سرداران ملکوٹ کے چہیتے سیاسی و تعمیراتی ٹھیکیداروں نے بھی زور پکڑا اور وہ تمام تر قوانین، ضابتوں اور قواعد سے بالا تر ہو گئے، کاغذوں اور دستاویزات میں تو سرکل بکوٹ پیرس بن گیا مگر قومی خزانے سے جاری فنڈز ان بے مہار ٹھیکیداروں کی بھینٹ چڑھ گئے، سردار مہتاب کی وزارت اعلیٰ کے ان تعمیراتی و سیاسی ٹھیکیداروں کے 18سال پہلے چھوڑے ہوئے ترقیاتی کام آج بھی اہلیان علاقہ کا منہ چڑھا رہے ہیں۔
٭…سردار مہتاب احمد خان کے بتیس سالوں کے دوران بیروٹ، ایوبیہ اور بکوٹ کے ہائی سکولوں میں ہائر سیکنڈری کلاسز کا اجراء ہوا، مقامی ایم بی بی ایس ڈاکٹروں، ایل ایچ ویز اور معاون پیرا میڈیکل عملہ بی ایچ یوز میں تعینات کیا گیا، کھیرالہ (ملکوٹ)، بیروٹ اور دیگر مقامات پر طبی سہولیات کیلئے عمارات بھی تعمیر ہوئیں لیکن اسی عہد میں ملکوٹ کا بی ایچ یو خرکاروں کے حوالے ہوا جس میں طبی عملہ کے بجائے گدھے بندھے ہوئے ہیں، ایوبیہ ہسپتال میں ڈاکٹر اور نرسیں تو موجود نہیں البتہ اس کے سبزہ زاروں میں گائیں اور بکریاں مٹر گشت کرتی ضرور نظر آتی ہیں، اسی دور میں سرکل بکوٹ بھر میں عطائی ڈاکٹروں کی بھی بھر مار ہوئی، جعلی ادویات کے ڈھیر لگ گئے، سرکاری ڈاکٹر اور دیگر عملہ عام آدمی کے بجائے نون لیگی حکمران ٹولہ کے ذاتی نوکر بن گئے جس کی مثال بکوٹ میں چوہدری ظفیر اور بیروٹ میں ڈاکٹر الیاس شاہ جی کی دی جا سکتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکل بکوٹ کے طبی ادارے تو کھلے رہے، ان میں ڈاکٹر تھے نہ ادویات، دائیاں، وکسینیٹر اور ڈریسر ہی ڈاکٹر بن کر لوگوں کا علاج کرتے رہے، مزید یہ کہ انہی تیس سالوں کے دوران پہلے سے موجود سرکل بکوٹ کے طبی ادارے تعلیمی اداروں کی طرح کھنڈر بنے آج بھی اپنے مقدر کے نوحہ گر ہیں۔
٭…سردار مہتاب کے عہد میں سرکل بکوٹ کو بلا شبہ علیحدہ شناخت ملی اور حکومتی ایوانوں میں اس علاقے کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہو گیا مگر دوسری طرف پہلے سے پساماندہ قرار دئے ہوئے سرکل بکوٹ کو حکومتی سطح پر ترقی یافتہ قرار دیا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ سرکل بکوٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں بالخصوص ماسٹرز، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ایم بی بی ایس ڈاکٹروں پر ضلعی اور صوبائی ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے، پہلے وہ کوٹے پر یہ ملازمتیں پا لیتے تھے مگر اب ان کا ایبٹ آباد کے پڑھے لکھے شہری علاقے سے مقابلہ نا ممکن ہو گیا اور یہ نوجوان اب ملک کے دیگر شہروں میں دھکے کھا رہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ سردار مہتاب کے دور میں نوجوانوں کو روزگار دلوانے میں بھی حکومتی سطح پر مجرمانہ اغماض برتا گیا اور اب وہ وقت آ ہی گیا ہے کہ سردار مہتاب اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سرکل بکوٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو انہیں وہ کچھ  ڈیلیور کریں جس کے وہ مستحق ہیں ۔۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔۔ یہ لمحے زندگی میں بار بار آیا نہیں کرتے
٭…قومی انتخابات میں تحریک انصاف کی متبادل سیاسی قوت کا گزشتہ 30 برسوں سے سنے جانیوالے مسحور کن تحصیل سرکل بکوٹ کے نعرہ کے ساتھ ظہور (Amergence) اور قومی سطح پر پہلی بار کے پی کے کے سابق وزیر اعلیٰ کی شکست کے بعد سردار مہتاب خان اب زندگی کی آخری اننگز کھیل رہے ہیں،  سردار مہتاب احمد خان گورنر شپ کے بعد  اب پی آئیی میں بطور چیئرمین انٹری کوع ان کی وفائوں کا صلہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے بہنوئی سردار ممتاز، فرسٹ کزن اور سمدھی سردار فدا خان ، اپنے چھوٹے صاحبزادے سردار شمعون یار خان اور اب پھر فرسٹ کزن اور ایم پی اے سردار فرید خان کو میدان سیاست میں لائے ہیں، سرکل بکوٹ کے باشعور اور تمام تر سہولیات سے محروم پی ایچ ڈی تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا مستقبل کب تابناک ہو گا۔۔۔۔؟ ہماری علاقائی تاریخ اپنے اندر بصیرت کا بہت بڑا سامان سموئے ہوئے ہے کہ ۔۔۔۔ 1974ء میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ… روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو کبھی زوال آسکتا ہے لیکن آج ماضی کے پیپلز پارٹی کے قائد عوام زندہ باد کے نعرے لگانے والے وہی جیالے… پی ٹی آئی کے پرچم تلے عمران کا نیا پاکستان بنانے کیلئے پرفشاں ہیں، نون لیگ کا کام اور مشن… اچھا تھا یا برا… مکمل ہو چکا ہے… اس نے اپنے باری کی بھی تکمیل کر لی ہے اور یہ فیصلہ خداوندی…کہ…ہم لوگوں پر دن پھیرتے رہتے ہیں… صوفی شاعر میاں محمد بخش کے الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ
سدے نا باغ وچ بلبل بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سدے نا باغ بہاراں
سدے نا ما پے، حسن جوانی، سدے نا صحبت یاراں
****************************
 (Published in The Express Tribune, February 15th, 2017.)
KARACHI: A former governor of Khyber-Pakhtunkhwa, Sardar Mehtab Ahmed Khan Abbasi, has been appointed adviser to the prime minister on aviation with the key objective of turning around fortunes of the loss-making Pakistan International Airlines (PIA). “Originally, the idea was to appoint him as the PIA chairman. The government has now given him a bigger position (of aviation adviser),” a PML-N senator said. A notification issued by the Cabinet Division said the president of Pakistan, on the advice of prime minister, has appointed Sardar Mehtab Ahmed Khan Abbasi as adviser to the prime minister with the status of federal minister with immediate effect. According to a source, he has been appointed adviser on aviation. There was speculation that Abbasi might be given the additional charge of PIA chairman as well. However, the chances of this are dim. Abbasi would head PIA in the capacity of adviser and not as a full-time chairman, it was learnt. Secondly, the PIA chairman must be a member of the board of directors, which he is not, as the board has powers to elect the chairman only and no one else. A close aide of Prime Minister Nawaz Sharif said Abbasi had expressed the desire to head PIA with the objective of fixing its financial problems. “He expressed the interest when the (PML-N) government removed him as Khyber-Pakhtunkhwa governor and appointed Zafar Iqbal Jaghra (in March 2016),” he said. A PIA official added that Abbasi had been attending the airline’s office for over two months now, but not on a regular basis. Federal Aviation Division Secretary Irfan Elahi has been serving as acting PIA chairman since December 2016. Earlier, Azam Saigol resigned from the chairman’s post on December 12, 2016 days after a plane with 47 people on board crashed in Abbottabad minutes after take-off. Cash-strapped PIA reported in October 2016 a 2.3% increase in its accumulated losses to Rs267.56 billion in the quarter ended March 31, 2016. 

 **************

 روزنامہ مسلمان اسلام آباد ۔۔۔۔ 15فروری 2017

No comments:

Post a Comment